صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
82. بَابُ: {قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا} :
باب: اللہ کا سورۃ التحریم میں یہ فرمانا ”لوگو! خود کو اور اپنے بیوی بچوں کو دوزخ سے بچاؤ“۔
حدیث نمبر: 5188
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ، فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَهِيَ مَسْئُولَةٌ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے (اس کی رعیت کے بارے میں) سوال ہو گا۔ پس امام حاکم ہے اس سے سوال ہو گا۔ مرد اپنی بیوی بچوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا۔ غلام اپنے سردار کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا ہاں پس تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہو گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1705  
´امام اور حاکم کی ذمہ داریوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے، چنانچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، اسی طرح مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے، غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1705]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو جس چیز کا ذمہ دار ہے اس سے اس چیز کے متعلق باز پرس بھی ہوگی،
اب یہ ذمہ دار کا کام ہے کہ اپنے متعلق یہ احساس و خیال رکھے کہ اسے اس ذمہ دار ی کا حساب وکتاب بھی دینا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1705   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2928  
´امام (حکمراں) پر رعایا کے کون سے حقوق لازم ہیں؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی ۱؎ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۲؎ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2928]
فوائد ومسائل:
ہر فرد اپنے دائرہ اختیار میں اپنی حدود تک ان سب کا محافظ وذمہ دار ہے۔
لہذا کوئی بھی اپنے دینی و دنیاوی فرائض ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔
یہی احساس ذمہ داری ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔


بچوں کی تعلیم وتربیت میں ماں باپ دونوں شریک ہوتے ہیں۔
مگر ماں کی ذمہ داری ایک اعتبار سے زیادہ ہے کہ بچے فطرتا اسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اور زیادہ تر اسی کی رعیت اور نگرانی میں رہتے ہیں۔
اس لئے شریعت نے اس کو بچوں پر راعی (نگران) بنایا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2928   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5188  
5188. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔ حاکم وقت نگہبان ہے، اسے بھی پوچھا جائے گا۔ مرد، اپنے اہل خانہ کا نگران ہے، اس سے سوال و جواب ہوگا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اس سے بھی پوچھا جائے گا۔ اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے، اسے پوچھا جائے گا۔ الغرض تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم سے ہر ایک سے سوال ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5188]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ جب ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی تو آدمی کو اپنے گھر والوں کا خیال رکھنا ان کو برے کاموں سے روکنا ضروری ہے ورنہ وہ بھی قیامت کے دن دوزخ میں ان کے ساتھ ہوں گے اور کہا جائے گا کہ تم نے اپنے گھر والوں کو برے کاموں سے کیوں نہ روکا آیت ﴿قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ (التحریم: 6)
کایہی مفہوم ہے۔
بہتر انسان وہی ہے جو خود نیک ہو اور اپنے بیوی بچوں کے حق میں بھی بھلا ہو۔
محبت اور نرمی سے گھر کا اور بال بچوں کا نظام بہتر رہتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے بہت خوش اخلاقی کا برتاؤکرتے تھے بعض دفعہ اپنی بیویوں سے مزاح بھی کرلیا کرتے تھے بعض دفعہ اپنی بیویوں سے مقابلے کی دوڑ لگا لیا کرتے تھے اور اپنی بیویوں کی زبان درازی کو در گزرفرما دیا کرتے تھے۔
ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے سبق حاصل کرنا چاہئے تا کہ ہم بھی اپنے گھر کے بہترین حاکم بن سکیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5188   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5188  
5188. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔ حاکم وقت نگہبان ہے، اسے بھی پوچھا جائے گا۔ مرد، اپنے اہل خانہ کا نگران ہے، اس سے سوال و جواب ہوگا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اس سے بھی پوچھا جائے گا۔ اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے، اسے پوچھا جائے گا۔ الغرض تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم سے ہر ایک سے سوال ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5188]
حدیث حاشیہ:
(1)
انسان کی بیوی بچوں پر لفظ اہل کا اطلاق ہوتا ہے۔
بیوی کےلیے اہلیہ کا اطلاق اسی سے ماخوذ ہے۔
ارشاد بار تعالیٰ کا مطلب ہے کہ تم اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانے کی فکر کرو۔
انھیں گناہ کرنے سے باز رکھو، نیک کام کرنے پر آمادہ کرو۔
انھیں آداب و اخلاق سکھاؤ، شر اور سرکشی سے منع کرو۔
قرآن کریم میں اپنے اہل و عیال کے متعلق درج ذیل دعا پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے:
وہ (رحمٰن کے بندے)
دعا کرتے ہیں:
اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔
(الفرقان: 74) (2)
بیوی اور اولاد سے انسان کو فطری طور پر محبت ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ دونوں اس کے لیے آزمائش کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لہٰذا ہر مسلمان کو ان کے حق میں دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ اللہ کے نافرمان اور دین سے بیگانہ رہ کر جہنم کا ایندھن اور اس کے لیے پریشانیوں کا باعث نہ بنیں۔
بہتر انسان وہ ہے جو خود بھی نیک ہو اور اپنے بیوی بچوں کے حق میں بھی خیر خواہی کے جذبات رکھے، محبت اور نرمی سے گھر کا نظام بہتر بنائے، اپنے اہل خانہ سے خوش اخلاقی کا برتاؤ کرے اور انھیں جہنم سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5188