صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
89. بَابُ كُفْرَانِ الْعَشِيرِ:
باب: عشیر کی ناشکری کی سزا عشیر خاوند کو کہتے ہیں عشیر شریک یعنی ساتھی کو بھی کہتے ہیں۔
وَهُوَ الزَّوْجُ وَهُوَ الْخَلِيطُ مِنَ الْمُعَاشَرَةِ، فِيهِ: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ یہ لفظ معاشرے سے نکلا ہے جس کے معنی خلط ملط یعنی ملا دینے کے ہیں۔ اس باب میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر: 5197
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ:" خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ أَوْ أُرِيتُ الْجَنَّةَ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ، قَالُوا: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: بِكُفْرِهِنَّ، قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں عطاء بن یسار نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ اس کی نماز پڑھی۔ آپ نے بہت لمبا قیام کی اتنا طویل کہ سورۃ البقرہ پڑھی جا سکے پھر طویل رکوع کیا۔ رکوع سے سر اٹھا کر بہت دیر تک قیام کیا۔ یہ قیام پہلے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے دوسرا طویل رکوع کیا۔ یہ رکوع طوالت میں پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر سر اٹھایا اور سجدہ کیا۔ پھر دوبارہ قیام کیا اور بہت دیر تک حالت قیام میں رہے۔ یہ قیام پہلی رکعت کے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر طویل رکوع کیا، یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا۔ پھر سر اٹھایا اور طویل قیام کیا۔ یہ قیام پہلے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر رکوع کیا، طویل رکوع۔ اور یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا۔ پھر سر اٹھایا اور سجدہ میں گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو گرہن ختم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان میں گرہن کسی کی موت یا کسی کی حیات کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ سے کوئی چیز بڑھ کر لی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ ہم سے ہٹ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی تھی یا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راوی کو شک تھا) مجھے جنت دکھائی گئی تھی۔ میں نے اس کا خوشہ توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا اور اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے اور میں نے دوزخ دیکھی آج کا اس سے زیادہ ہیبت ناک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا اور میں نے دیکھا کہ اس میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کے احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی ایک کے ساتھ زندگی بھر بھی حسن سلوک کا معاملہ کرو پھر بھی تمہاری طرف سے کوئی چیز اس کے لیے ناگواری خاطر ہوئی تو کہہ دے گی کہ میں نے تو تم سے کبھی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5197  
5197. سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ نماز گرہن پڑھی۔ آپ نے سورہ بقرہ پڑھنے کی مقدار طویل قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، رکوع سے سر اٹھا کر پھر لمبا قیام فرمایا اور یہ قیام پہلے قیام سے کچھ مختصر تھا، پھر آپ نے دوسرا طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر سر اٹھایا اس کے بعد سجدہ کیا اور کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلی رکعت کے رکوع سے کم تھا پھر اپنا سر اٹھایا اور طویل قیام کیا یہ قیام پہلے سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا اور یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا پھر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا اس کے بعد آپ نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5197]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں نماز کسوف کا بیان ہے آخر میں دوزخ کا ایک نظارہ کیا گیا ہے جو نافرمان عورتوں سے متعلق ہے۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوتا ہے عورتوں کی یہ فطرت ہے جو بیان ہوئی إلا ما شاء اللہ۔
بہت کم نیک بخت عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو شکر گزار اور اطاعت شعار ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5197   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5197  
5197. سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ نماز گرہن پڑھی۔ آپ نے سورہ بقرہ پڑھنے کی مقدار طویل قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، رکوع سے سر اٹھا کر پھر لمبا قیام فرمایا اور یہ قیام پہلے قیام سے کچھ مختصر تھا، پھر آپ نے دوسرا طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر سر اٹھایا اس کے بعد سجدہ کیا اور کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلی رکعت کے رکوع سے کم تھا پھر اپنا سر اٹھایا اور طویل قیام کیا یہ قیام پہلے سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا اور یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا پھر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا اس کے بعد آپ نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5197]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ کا ایک منظر پیش کیا گیا جو نافرمان اور معصیت شعار عورتوں سے متعلق ہے۔
وہ یہ ہے کہ عورتیں اپنے شوہروں کے حقوق کی ناشکری کرتی رہتی ہیں جبکہ ایسا کرنا سخت گناہ ہے اور یہی گناہ ان کے دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔
(2)
حدیث میں جو عورتوں کی فطرت بیان ہوئی ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے۔
بہت کم نیک بخت عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو خاوند کی فرمانبردار اور اطاعت شعار ہوں اور خاوند کی طرف سے روکھی سوکھی پر شکر گزار ہوں۔
(فتح الباري: 371/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5197