صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
1. بَابُ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اے نبی! تم اور تمہاری امت کے لوگ جب عورتوں کو طلاق دینے لگیں تو ایسے وقت طلاق دو کہ ان کی عدت اسی وقت شروع ہو جائے اور عدت کا شمار کرتے رہو“۔
{أَحْصَيْنَاهُ} حَفِظْنَاهُ وَعَدَدْنَاهُ، وَطَلاَقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وَيُشْهِدُ شَاهِدَيْنِ.
‏‏‏‏ (پورے تین طہر یا تین حیض) اور سنت کے مطابق یہی ہے کہ حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور اس طہر میں عورت سے ہمبستری نہ کی ہو اور اس پر دو گواہ مقرر کرے۔ لفظ «أحصيناه‏» کے معنی ہم نے اسے یاد کیا اور شمار کرتے رہے۔
حدیث نمبر: 5251
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (حالت حیض میں) طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور پھر اپنے نکاح میں باقی رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنی نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے ہونا چاہئے۔ یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 367  
´حالت حیض میں طلاق کا حکم`
«. . . 233- وبه: عن ابن عمر: أنه طلق امرأته وهى حائض فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مره فليراجعها ثم ليمسكها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التى أمر الله أن تطلق لها النساء. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو اس کی حالت حیض میں (ایک) طلاق دی، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (ابن عمر کو) حکم دو کہ وہ رجوع کر لے، پھر اسے روکے رکھے حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے پھر وہ اس سے پاک ہو جائے پھر اگر چاہے تو اسے اپنے نکاح میں رکھے اور اگر چاہے تو اسے چھونے سے پہلے طلاق دے دے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 367]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5251، و مسلم 1471، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ حالت حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے لیکن اگر دی جائے تو یہ شمار ہوتی ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی حائضہ بیوی کو ایک طلاق دی تھی۔ [صحيح بخاري: 5332، صحيح مسلم: 1471، دارالسلام: 3653]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ طلاق (جو میں نے حائضہ بیوی کو دی تھی) ایک طلاق شمار کی گئی تھی۔ [صحيح بخاري: 5253، صحيح مسلم: 1471، دارالسلام: 3658]
معلوم ہوا کہ حالت حیض والی بیوی کو طلاق دینا ممنوع ہے لیکن اگر دے دی جائے تو یہ طلاق شمار ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بدعی طلاق واقع ہو جاتی ہے اگرچہ ایسی طلاق دینا غلط ہے۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو (ایک) طلاق دے پھر وہ تیسرے حیض میں داخل ہوجائے تو وہ اپنے خاوند سے بری ہوجاتی ہے اور خاوند اس سے بری ہو جاتا ہے۔ [الموطأ 2/578 ح1258، وسنده صحيح]
➌ عالم خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو غلطی یا لغزش سے مبرا نہیں ہو سکتا۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ابغض الحلال الي الله عزوجل الطلاق .»
اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے۔ [سنن ابي داؤد: 2178 وسنده حسن لذاته وأخطأ من ضعفه]
➎ اگر کسی مسلے کا علم نہ ہو تو انسان گناہ گار نہیں ہوتا لیکن علم ہو جانے کے بعد سابقہ کوتاہی پر توبہ ضروری ہے۔
➏ قرآن مجید کا بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث (اور آثارِ سلف صالحین) سے معلوم ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 233   
  الشيخ غلام مصطفےٰ ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري5251  
´حالت حیض میں طلاق کا حکم`
امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (حالت حیض میں) طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور پھر اپنے نکاح میں باقی رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنی نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے ہونا چاہئے۔ یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/ ح: 5251]
فوائد و مسائل
حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، جیسا کہ:
❀ نافع رحمہ الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مره فليرا جعها، ثم ليطلقها أو حاملا .»
انہیں حکم دیں کہ وہ رجوع کر لیں، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دیں۔ [صحيح بخاري: 5251، صحيح مسلم: 1471، واللفظ له]
«فليرا جعها» کے الفاظ واضح طور پر وقوع طلاق کا پتا دے رہے ہیں، اگر طلاق واقع نہیں تھی تو رجوع کیسا؟
● امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ پر یوں تبویب فرمائی:
اس بات کا بیان کہ حائضہ کو طلاق دی جاے تو وہ شمار ہو گی۔
↰ ہمارے موقف کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ:
❀ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اس طلاق کو شمار کیا جائے گا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ [سنن الدارقطني: 5/4، سنن الكبري للبيهقي: 326/7، وسنده حسن]
❀ نیز سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک طلاق شمار کیا۔ [مسند الطيالسي: 68، مسند عمر بن خطاب لابن النجاد: 1، وسنده صحيح]
↰ صاحب واقعہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خود فرماتے ہیں:
یہ میری ایک طلاق شمار کی گئی۔ [صحيح بخاري: 5253]
↰ راوی حدیث عبیداللہ بن عمر العمری کہتے ہیں:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اپنی بیوی کو حیض میں دی گی طلاق ایک شمار ہو گئی تھی، اگرچہ ان کی یہ طلاق سنی نہ تھی۔ [سنن الدارقطني: 6/3، مسند عمر بن الخطاب، تحت حديث: 3وسنده حسن]
● امام عطابن ابی رباح [مصنف ابن ابي شيبة: 5/5، وسنده صحيح]،
● امام زہری [ايضا، وسنده صحيح]،
● امام ابن سیرین [ايضا، وسنده صحيح]،
● امام جابر زید [ايضا، وسنده صحيح]
● اور تمام محدیثن وائمہ دین رحمہ الله حیض میں طلاق کو موثر سمجھتے تھے۔
اگرچہ حالت حیض میں طلاق سنی نہیں ہے، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ بھی کیا لہٰذا اس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں رہا۔

❀ سنن ابی داؤد [2185] میں یہ الفاظ ہیں کہ:
«فردها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يرها شيا . . .»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کولوٹا دیا اور آپ نے اسے (طلاق سنی) نہیں سمجھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت حیض میں طلاق شمار تو کیا ہے، لیکن مستحسن خیال نہیں کیا۔

❀ سنن النسائی [3427] وسندہ صحیح کے الفاظ:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس (بیوی) کو واپس کر دیا (رجوع کا حکم دیا) حتی کہ انہوں نے اسے حالت طہر میں طلاق دی۔
↰ مطلب یہ ہے کہ پہلی طلاق کے واقع ہو جانے کے بعد رجوع کیا، اس کے بعد حالت طہر میں دوسری طلاق دی، اس طرح تمام روایات میں تطبیق ہو جائے گی، کیونکہ صحیح حدیث اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے بیان سے ثابت ہے کہ حالت حیض والی طلاق موثر ہے۔
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 0   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5251  
5251. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اپنی بیوی کو بحالت حیض طلاق دے دی۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: عبداللہ سے کہو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے۔ پھر اسے اپنے نکاح میں باقی رکھے حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے۔ پھر اس کے بعد اگر چاہے تو اسے روک رکھے اور اگر چاہے تو ملاپ کیے بغیر اسے طلاق دے دے۔ یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ اس کا لحاظ رکھتے ہوئے عورتوں کو طلاق دی جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5251]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان اور مذکورہ حدیث سے طلاق کا مسنون طریقہ بتایا ہے کہ خاوند جس طہر میں طلاق دینا چاہے اس میں اپنی بیوی سے ملاپ نہ کرے، پھر ایک ہی بار کی طلاق کو کافی سمجھے اور پوری عدت گزر جانے دے۔
اس طرح عورت پر طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ غیر مسنون طلاق کی صورتیں درج ذیل ہیں:
٭حالت حیض میں طلاق دی جائے۔
٭ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں ملاپ کر چکا ہے۔
٭بیک وقت تین طلاقیں دے۔
٭ایک طہر میں ہی الگ الگ موقع پر تین طلاقیں دے۔
ان میں فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ طریقۂ طلاق حرام ہے۔
خاوند اس سے گناہ گار ہوگا، تاہم طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ خاوند نے معصیت اور حرام کا ارتکاب کیا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ طلاق اور رجوع میں گواہ بنانے کا بھی حکم اگرچہ رجوع اور طلاق کے لیے گواہی اس طرح شرط نہیں ہے کہ اس کے بغیر رجوع اور طلاق غیر مؤثر ہوتے ہیں بلکہ گواہ بنانے کا حکم برسبیل احتیاط ہے تاکہ بعد میں کوئی فریق کسی واقعے کا انکار نہ کرے اور جھگڑا اور اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہو سکے، نیز شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہو جائے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5251