صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
3. بَابُ مَنْ طَلَّقَ وَهَلْ يُوَاجِهُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ بِالطَّلاَقِ:
باب: طلاق دینے کا بیان اور کیا طلاق دیتے وقت عورت کے منہ در منہ طلاق دے؟
حدیث نمبر: 5254
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ: أَيُّ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ؟ قَالَ:أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ ابْنَةَ الْجَوْنِ لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَنَا مِنْهَا، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ لَهَا: لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ الْحَقِي بِأَهْلِكِ". قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ، رَوَاهُ حَجَّاجُ بْنُ أَبِي مَنِيعٍ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عُرْوَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کن بیوی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگی تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جون کی بیٹی (امیمہ یا اسماء) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں (نکاح کے بعد) لائی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو اس نے یہ کہہ دیا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تم نے بہت بڑی چیز سے پناہ مانگی ہے، اپنے میکے چلی جاؤ۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حجاج بن یوسف بن ابی منیع سے، اس نے بھی اپنے دادا ابومنیع (عبیداللہ بن ابی زیاد) سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2050  
´جن الفاظ سے طلاق واقع ہوتی ہے ان کا بیان۔`
اوزاعی کہتے ہیں میں نے زہری سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بیوی نے آپ سے اللہ کی پناہ مانگی تو انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے خبر دی کی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جَون کی بیٹی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت میں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب گئے تو بولی: میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ایک بڑی ہستی کی پناہ مانگی ہے تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2050]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طلاق کے لیے بعض الفاظ صریح ہیں، مثلاً:
تجھے طلاق ہے۔
میں نے تجھے طلاق دی۔
ان سے بالاتفاق طلا ق ہوجاتی ہے۔

(2)
بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان سے طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا مفہوم بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔
انہیںکنایہ کےالفاظ کہتے ہیں۔
ان میں کہنے والے کی نیت کو دخل ہے۔
اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہےہیں تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں، مثلاً:
اس حدیث میںاپنے گھروالوں کے پاس چلی جا سے مراد طلاق ہے لیکن حضرت کعب بن مالک کی توبہ کے مشہور واقعے میں جب رسول اللہﷺ نے انہیں حکم دیا کہ بیوی سے مقاربت نہ کریں تو انہوں نے بیوی سے یہی الفاظ کہے:
(الحقی باهلك)
اپنے گھروالوں کے ہاں چلی جا۔
اور وہ طلاق شمار نہیں ہوئی کیونکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ تم اس گھر میں رہائش نہ رکھو جہاں میں موجود ہوں، ایسا نہ ہو کہ نبیﷺ کےحکم کی خلاف ورزی ہوجائے اور میں مقاربت کربیٹھوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب حدیث کعب بن مالك حدیث: 4481)

(3)
  اس واقعہ سے متعلق چند فوائد حدیث: 2037 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2050   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 891  
´حق مہر کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عمرہ بنت الجون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جب اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (خلوت میں) داخل کیا گیا یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے ٹھیک پناہ دینے والے کی پناہ طلب کی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دیدی اور اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس کو فائدے کے طور پر تین کپڑے دے دو۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔ اس کی سند میں متروک راوی ہے۔ اس کا اصل قصہ صحیح بخاری میں ابواسید ساعدی سے مروی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 891»
تخریج:
« «موضوع» أخرجه ابن ماجه، الطلاق، باب متعة الطلاق، حديث:2037.* عبيد بن القاسم متروك، كذبه ابن معين، واتهمه أبوداود بالوضع (تقريب)، وحديث البخاري، الطلاق، حديث:5254 هو الصحيح، وحديث أبي أسيد الساعدي: أخرجه البخاري، الطلاق، حديث:5255 وانظر، حديث:924.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے صحیح بخاری کی روایت صحیح ہے‘ علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس میں حضرت اسامہ کا ذکر منکر ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح الفاظ صحیح بخاری کے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو اسید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اسے اس کے والدین کے ہاں بھیجنے کے لیے تیار کریں اور اسے پہننے کے لیے دو سوتی کپڑے دے دیں‘ لہٰذا صحیح بخاری کی روایت ہی صحیح ہے جیسا کہ دیگر محققین نے بھی کہا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۵ /۴۶۰.۴۶۲‘ والإرواء:۷ /۱۴۶‘ حدیث:۲۰۶۴) 2. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو دخول سے پہلے طلاق ہو جائے اور اس کا مہر بھی معین نہ ہوا ہو تو اسے کچھ نہ کچھ مال ضرور دینا چاہیے۔
علماء کی اکثریت اسے واجب کہتی ہے۔
آیت کا ظاہر بھی اسی کا مؤید ہے۔
وضاحت: «عَمْرَہ بنت جون» عمرہ میں عین پر فتحہ اور میم ساکن ہے۔
جون میں جیم پر فتحہ اور واؤ ساکن ہے۔
اس جونیہ کے (نام کے) بارے میں اختلاف ہے‘ چنانچہ اس روایت میں ہے کہ یہ عَمْرہ ہے۔
اورابن جوزی نے اپنی کتاب (التلقیح‘ ص:۱۳) میں ذکر کیا ہے کہ یہ اسماء بنت نعمان بن ابی الجون بن حارث کندیہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی نقل کردہ ابو اسید کی حدیث کے بعض طرق اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ امیمہ بنت نعمان بن شراحیل ہے۔
امام زہری کہتے ہیں کہ یہ فاطمہ بنت ضحاک ہے۔
(التلقیح‘ ص:۱۲) صاف ظاہر ہے کہ ان سب سے ایک ہی عورت مراد ہے اور اختلاف تو راویوں کے تصرفات کی وجہ سے ہے۔
اور درست بات یہ ہے کہ اس کا نام امیمہ ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابواُسَیْد رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ اُسَیْد اسد کی تصغیرہے۔
یہ مالک بن ربیعہ بن بَدَن ہیں۔
(بدن کے با اور دال دونوں پر فتحہ ہے۔
)
یہ نام کی بجائے اپنی کنیت سے زیادہ مشہور تھے۔
غزوۂ بدر اور دیگر غزوات میں شریک ہوئے۔
۳۰ ہجری میں وفات پائی۔
اور ایک قول کے مطابق اس کے بعد وفات پائی۔
بلکہ مدائنی کے قول کے مطابق ۶۰ ہجری میں وفات پائی اور بدری صحابہ میں سے وفات پانے والے سب سے آخری صحابی یہ ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 891   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5254  
5254. سیدنا اوزاعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہری سے دریافت کیا: نبی ﷺ کی وہ کون سی بیوی تھی جس نے آپ ﷺ سے پناہ مانگی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے سیدنا عروہ نے بتایا، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت کیا کہ دختر جون کو جب رسول اللہ ﷺ کے پاس بلایا گیا اور آپ ﷺ اس کے قریب گئے تو اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے بڑی عظیم ذات کے ذریعے سے پناہ مانگی ہے، لہذا تو اپنے اہل خانہ کے ہاں چلی جا۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری) نے فرمایا: اس حدیث کو حجاج بن ابو منیع نے اپنے دادا سے، انہوں نے امام زہری سے انہوں نے عروہ سے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5254]
حدیث حاشیہ:
آپ نے اس عورت سے فرمایا کہ اپنے میکے چلی جا، یہ طلاق کا کنایہ ہے۔
ایسے کنایہ کے الفاظ میں اگر طلاق کی نیت ہو تو طلاق پڑ جاتی ہے۔
کہتے ہیں پھر ساری عمر یہ عورت مینگنیاں چنتی رہی اور کہتی جاتی تھی میں بد نصیب ہوں۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ یہ عورت بڑی خوبصورت تھی بعض عورتوں نے جب اسے دیکھا تو انہوں نے اس کو فریب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تیرے پاس آئیں تو (أعوذ باللہ منك)
کہہ دینا۔
آپ کو ایسا کہنا پسند آتا ہے۔
وہ بھولی بھالی عورت اس چکمہ میں آ گئی۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے صحبت کرنے چاہی تو وہ یہی کہہ بیٹھی۔
آپ نے اس کو طلاق دے دی۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہ نکالا کہ عورت کے منہ در منہ اسے طلاق دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
میں (وحیدا لزماں)
کہتا ہوں کہ یہ ایک خاص واقعہ ہے۔
اول تو اس عورت کا کوئی حق صحبت آپ پر نہ تھا۔
دوسرے خود اس نے شرارت کی، بھلا یہ کیا بات تھی کہ خاوند جورو کا سب سے پیارا ہوتا ہے، اس سے اللہ کی پناہ مانگنے لگی۔
اس لیے آپ نے اس کے منہ در منہ طلاق دے دی۔
یہ کچھ بھی مروت کے خلاف نہ تھا۔
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ عورت زندگی بھر نادم رہی اور کہتی رہی کہ میں بڑی بد بخت ہوں۔
یہ بھی مروی ہے کہ وہ مرنے سے پہلے فاتر العقل ہو گئی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5254   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5254  
5254. سیدنا اوزاعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہری سے دریافت کیا: نبی ﷺ کی وہ کون سی بیوی تھی جس نے آپ ﷺ سے پناہ مانگی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے سیدنا عروہ نے بتایا، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت کیا کہ دختر جون کو جب رسول اللہ ﷺ کے پاس بلایا گیا اور آپ ﷺ اس کے قریب گئے تو اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے بڑی عظیم ذات کے ذریعے سے پناہ مانگی ہے، لہذا تو اپنے اہل خانہ کے ہاں چلی جا۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری) نے فرمایا: اس حدیث کو حجاج بن ابو منیع نے اپنے دادا سے، انہوں نے امام زہری سے انہوں نے عروہ سے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5254]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے عنوان کے ہر دو اجزاء ثابت ہوئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیوی سے فرمایا:
تم اپنے میکے چلی جاؤ۔
اس سے مراد طلاق تھی۔
معلوم ہوا کہ نکاح کے بعد طلاق دینا جائز ہے۔
اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
(2)
اسی طرح آپ نے اسے مخاطب ہو کر فرمایا، اس سے عنوان کا دوسرا جز ثابت ہوا۔
لیکن بہتر ہے کہ طلاق دیتے وقت بیوی کومنہ در منہ نہ کہے۔
اس میں آسانی بھی ہے اور بیوی کے ساتھ نرمی کرنا بھی ہے۔
ہاں، اگر ضرورت ہو تو بیوی کے سامنے بھی طلاق دی جا سکتی ہے۔
بہرحال اس معاملے میں کوئی پابندی نہیں ہے۔
طلاق دینا خاوند کا اپنا اختیار ہے، وہ اپنا اختیار جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5254