صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
8. بَابُ: {لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ”اے پیغمبر! جو چیز اللہ نے تیرے لیے حلال کی ہے اسے تو اپنے اوپر کیوں حرام کرتا ہے“۔
حدیث نمبر: 5267
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: زَعَمَ عَطَاءٌ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْتَقُلْ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا، بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَلَنْ أَعُودَ لَهُ، فَنَزَلَتْ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِلَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 1 - 4 لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ سورة التحريم آية 3 لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا".
مجھ سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے، ان سے ابن جریج نے کہ عطاء بن ابی رباح نے یقین کے ساتھ کہا کہ انہوں نے عبید بن عمیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں ٹھہرتے تھے اور ان کے یہاں شہد پیا کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے مل کر صلاح کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے جس کے یہاں بھی تشریف لائیں تو آپ سے یہ کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر (ایک خاص قسم کے بدبودار گوند) کی مہک آتی ہے، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد ہم میں سے ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك‏» کہ اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔ سے «‏‏‏‏إن تتوبا إلى الله‏» تک۔ یہ عائشہ رضی اللہ عنہما اور حفصہ رضی اللہ عنہما کی طرف خطاب ہے «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه‏» ۔ حدیث سے آپ کا یہی فرمانا مراد ہے کہ میں نے مغافیر نہیں کھایا بلکہ شہد پیا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5267  
5267. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ سیدہ زینب بنت حجش‬ ؓ ک‬ے پاس ٹھہرتے اور ان کے ہاں شہد نوش کرتے تھے میں نے اور حفصہ‬ ؓ ن‬ے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی ﷺ تشریف لائیں وہ آپ سے کہے کہ میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ آپ ﷺ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ سے یہی بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی بات نہیں، میں نے زینب بنت حجش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔۔۔ اگر تم دونوں توبہ کرلو۔ یہ خطاب سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬و ہے۔ اور جب نبی نے کسی بیوی سے راز کی بات کی۔ تو اس سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: میں نے (مغافر نہیں بلکہ) شہد پیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5267]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کا رد کیا ہے جوکہتے ہیں عورت کے حرام کرنے میں کچھ لازم نہیں آتا کیونکہ انہوں نے اسی آیت سے دلیل لی ہے تو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کردیا کہ یہ آیت شہد کے حرام کر لینے میں اتری ہے نہ کہ عورت کے حرام کر لینے میں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی نفرت تھی کہ آپ کے بدن یا کپڑے میں سے کوئی بد بو آئے۔
آپ انتہائی نفاست پسند تھے۔
ہمیشہ خوشبو میں معطر رہتے تھے۔
حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے یہ صلاح اس لیے کی کہ آپ شہد پینا چھوڑ کر اس دن سے زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرنا چھوڑ دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5267   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5267  
5267. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ سیدہ زینب بنت حجش‬ ؓ ک‬ے پاس ٹھہرتے اور ان کے ہاں شہد نوش کرتے تھے میں نے اور حفصہ‬ ؓ ن‬ے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی ﷺ تشریف لائیں وہ آپ سے کہے کہ میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ آپ ﷺ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ سے یہی بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی بات نہیں، میں نے زینب بنت حجش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔۔۔ اگر تم دونوں توبہ کرلو۔ یہ خطاب سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬و ہے۔ اور جب نبی نے کسی بیوی سے راز کی بات کی۔ تو اس سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: میں نے (مغافر نہیں بلکہ) شہد پیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5267]
حدیث حاشیہ:
(1)
جو حضرات کہتے ہیں کہ بیوی کو خود پر حرام قرار دینے سے کچھ لازم نہیں آتا انھوں نے اسی آیت سے دلیل لی ہے۔
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید کی ہے کہ یہ آیت شہد کے حرام کرنے پر نازل ہوئی تھی،عورت کے حرام کرنے پر نہیں۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طبعاً بہت نفاست پسند تھے۔
آپ کو بہت نفرت تھی کہ آپ کے بدن یا کپڑوں سے کسی قسم کی بو آئے،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات خوشبو سے معطر رہتے تھے۔
شہد کو حرام کردینے کی بھی یہی وجہ تھی۔
چونکہ آپ نے قسم بھی اٹھائی تھی جیسا کہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے،(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4912)
اس لیے آپ کو قسم کا کفارہ دینے کے متعلق کہا گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف یہ تھا کہ بیوی کو حرام کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ قسم کا کفارہ دینا ہوگا جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا:
میں نے اپنی بیوی کو اپنے آپ پر حرام کرلیا ہے تو انھوں نے فرمایا:
تو غلط کہتا ہے۔
وہ تجھ پر حرام نہیں ہوئی،پھر آپ نے سورۂ تحریم کی پہلی آیت پڑھی اور فرمایا کہ تجھے ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔
(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3449)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5267