صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
11. بَابُ الطَّلاَقِ فِي الإِغْلاَقِ:
باب: زبردستی اور جبراً طلاق دینے کا حکم۔
وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا، وَالْغَلَطِ وَالنِّسْيَانِ فِي الطَّلاَقِ وَالشِّرْكِ وَغَيْرِهِ، لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى» . وَتَلاَ الشَّعْبِيُّ: {لاَ تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا} وَمَا لاَ يَجُوزُ مَنْ إِقْرَارِ الْمُوَسْوِسِ. وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلَّذِي أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ: «أَبِكَ جُنُونٌ» . وَقَالَ عَلِيٌّ بَقَرَ حَمْزَةُ خَوَاصِرَ شَارِفَيَّ، فَطَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ، فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ ثَمِلَ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ هَلْ أَنْتُمْ إِلاَّ عَبِيدٌ لأَبِي فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ ثَمِلَ، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ، وَقَالَ عُثْمَانُ لَيْسَ لِمَجْنُونٍ وَلاَ لِسَكْرَانَ طَلاَقٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ طَلاَقُ السَّكْرَانِ وَالْمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ. وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ لاَ يَجُوزُ طَلاَقُ الْمُوَسْوِسِ. وَقَالَ عَطَاءٌ إِذَا بَدَا بِالطَّلاَقِ فَلَهُ شَرْطُهُ. وَقَالَ نَافِعٌ طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ إِنْ خَرَجَتْ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِنْ خَرَجَتْ فَقَدْ بُتَّتْ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ تَخْرُجْ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِيمَنْ قَالَ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ كَذَا وَكَذَا فَامْرَأَتِي طَالِقٌ ثَلاَثًا يُسْئَلُ عَمَّا قَالَ، وَعَقَدَ عَلَيْهِ قَلْبُهُ، حِينَ حَلَفَ بِتِلْكَ الْيَمِينِ، فَإِنْ سَمَّى أَجَلاً أَرَادَهُ وَعَقَدَ عَلَيْهِ قَلْبُهُ حِينَ حَلَفَ، جُعِلَ ذَلِكَ فِي دِينِهِ وَأَمَانَتِهِ. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ إِنْ قَالَ لاَ حَاجَةَ لِي فِيكِ. نِيَّتُهُ، وَطَلاَقُ كُلِّ قَوْمٍ بِلِسَانِهِمْ. وَقَالَ قَتَادَةُ إِذَا قَالَ إِذَا حَمَلْتِ فَأَنْتِ طَالِقٌ. ثَلاَثًا، يَغْشَاهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ مَرَّةً، فَإِنِ اسْتَبَانَ حَمْلُهَا فَقَدْ بَانَتْ. وَقَالَ الْحَسَنُ إِذَا قَالَ الْحَقِي بِأَهْلِكِ. نِيَّتُهُ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الطَّلاَقُ عَنْ وَطَرٍ، وَالْعَتَاقُ مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ إِنْ قَالَ مَا أَنْتِ بِامْرَأَتِي. نِيَّتُهُ، وَإِنْ نَوَى طَلاَقًا فَهْوَ مَا نَوَى. وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلاَثَةٍ عَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ. وَقَالَ عَلِيٌّ وَكُلُّ الطَّلاَقِ جَائِزٌ إِلاَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوهِ.
‏‏‏‏ اسی طرح نشہ یا جنون میں دونوں کا حکم ایک ہونا، اسی طرح بھول چوک سے طلاق دینا یا بھول چوک سے کوئی شرک (بعضوں نے یہاں لفظ «واشك» نقل کیا ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے) کا حکم نکال بیٹھنا یا شرک کا کوئی کام کرنا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام کام نیت صحیح پر ہوتے ہیں اور ہر ایک آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے اور عامر شعبی نے یہ آیت پڑھی «لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا‏» اور اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ وسواسی اور مجنون آدمی کا اقرار صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جو زنا کا اقرار کر رہا تھا۔ کہیں تجھ کو جنون تو نہیں ہے اور علی رضی اللہ عنہ نے کہا جناب امیر حمزہ نے میری اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے (ان کے گوشت کے کباب بنائے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ملامت کرنی شروع کی پھر آپ نے دیکھا کہ وہ نشہ میں چور ہیں۔ ان کی آنکھیں سرخ ہیں۔ انہوں نے (نشہ کی حالت میں) یہ جواب دیا تم سب کیا میرے باپ کے غلام نہیں ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیا کہ وہ بالکل نشے میں چور ہیں، آپ نکل کر چلے آئے، ہم بھی آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا مجنون اور نشہ والے کی طلاق نہیں پڑے گی (اسے ابن ابی شیبہ نے وصل کیا)۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نشے اور زبردستی کی طلاق نہیں پڑے گی (اس کو سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا)۔ اور عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر طلاق کا وسوسہ دل میں آئے تو جب تک زبان سے نہ نکالے طلاق نہیں پڑے گی۔ اور عطاء بن ابی رباح نے کہا اگر کسی نے پہلے ( «انت طالق») کہا اس کے بعد شرط لگائی کہ اگر تو گھر میں گئی تو شرط کے مطابق طلاق پڑ جائے گی۔ اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا اگر کسی نے اپنی عورت سے یوں کہا تجھ کو طلاق بائن ہے اگر تو گھر سے نکلی پھر وہ نکل کھڑی ہوئی تو کیا حکم ہے۔ انہوں نے کہا عورت پر طلاق بائن پڑ جائے گی۔ اگر نہ نکلے تو طلاق نہیں پڑے گی اور ابن شہاب زہری نے کہا (اسے عبدالرزاق نے نکالا)۔ اگر کوئی مرد یوں کہے میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری عورت پر تین طلاق ہیں۔ اس کے بعد یوں کہے جب میں نے کہا تھا تو ایک مدت معین کی نیت کی تھی (یعنی ایک سال یا دو سال میں یا ایک دن یا دو دن میں) اب اگر اس نے ایسی ہی نیت کی تھی تو معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان رہے گا (وہ جانے اس کا کام جانے)۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا (اسے ابن ابی شیبہ نے نکالا) اگر کوئی اپنی جورو سے یوں کہے اب مجھ کو تیری ضرورت نہیں ہے تو اس کی نیت پر مدار رہے گا۔ اور ابراہیم نخعی نے یہ بھی کہا کہ دوسری زبان والوں کی طلاق اپنی اپنی زبان میں ہو گی۔ اور قتادہ نے کہا اگر کوئی اپنی عورت سے یوں کہے جب تجھ کو پیٹ رہ جائے تو تجھ پر تین طلاق ہیں اس کو لازم ہے کہ ہر طہر پر عورت سے ایک بار صحبت کرے اور جب معلوم ہو جائے کہ اس کو پیٹ رہ گیا، اسی وقت وہ مرد سے جدا ہو جائے گی۔ اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی اپنی عورت سے کہا جا اپنے میکے چلی جا اور طلاق کی نیت کی تو طلاق پڑ جائے گی۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا طلاق تو (مجبوری سے) دی جاتی ہے ضرورت کے وقت اور غلام کو آزاد کرنا اللہ کی رضا مندی کے لیے ہوتا ہے۔ اور ابن شہاب زہری نے کہا اگر کسی نے اپنی عورت سے کہا تو میری جورو نہیں ہے۔ اور اس کی نیت طلاق کی تھی تو طلاق پڑ جائے گی اور علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا (جسے بغوی نے جعدیات میں وصل کیا) عمر! کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تین آدمی مرفوع القلم ہیں (یعنی ان کے اعمال نہیں لکھے جاتے) ایک تو پاگل جب تک وہ تندرست نہ ہو، دوسرے بچہ جب تک وہ جوان نہ ہو، تیسرے سونے والا جب تلک وہ بیدار نہ ہو۔ اور علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر ایک کی طلاق پڑ جائے گی مگر نادان، بیوقوف (جیسے دیوانہ، نابالغ، نشہ میں مست وغیرہ) کی طلاق نہیں پڑے گی۔