صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
11. بَابُ الطَّلاَقِ فِي الإِغْلاَقِ:
باب: زبردستی اور جبراً طلاق دینے کا حکم۔
وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا، وَالْغَلَطِ وَالنِّسْيَانِ فِي الطَّلاَقِ وَالشِّرْكِ وَغَيْرِهِ، لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى» . وَتَلاَ الشَّعْبِيُّ: {لاَ تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا} وَمَا لاَ يَجُوزُ مَنْ إِقْرَارِ الْمُوَسْوِسِ. وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلَّذِي أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ: «أَبِكَ جُنُونٌ» . وَقَالَ عَلِيٌّ بَقَرَ حَمْزَةُ خَوَاصِرَ شَارِفَيَّ، فَطَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ، فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ ثَمِلَ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ هَلْ أَنْتُمْ إِلاَّ عَبِيدٌ لأَبِي فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ ثَمِلَ، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ، وَقَالَ عُثْمَانُ لَيْسَ لِمَجْنُونٍ وَلاَ لِسَكْرَانَ طَلاَقٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ طَلاَقُ السَّكْرَانِ وَالْمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ. وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ لاَ يَجُوزُ طَلاَقُ الْمُوَسْوِسِ. وَقَالَ عَطَاءٌ إِذَا بَدَا بِالطَّلاَقِ فَلَهُ شَرْطُهُ. وَقَالَ نَافِعٌ طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ إِنْ خَرَجَتْ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِنْ خَرَجَتْ فَقَدْ بُتَّتْ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ تَخْرُجْ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِيمَنْ قَالَ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ كَذَا وَكَذَا فَامْرَأَتِي طَالِقٌ ثَلاَثًا يُسْئَلُ عَمَّا قَالَ، وَعَقَدَ عَلَيْهِ قَلْبُهُ، حِينَ حَلَفَ بِتِلْكَ الْيَمِينِ، فَإِنْ سَمَّى أَجَلاً أَرَادَهُ وَعَقَدَ عَلَيْهِ قَلْبُهُ حِينَ حَلَفَ، جُعِلَ ذَلِكَ فِي دِينِهِ وَأَمَانَتِهِ. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ إِنْ قَالَ لاَ حَاجَةَ لِي فِيكِ. نِيَّتُهُ، وَطَلاَقُ كُلِّ قَوْمٍ بِلِسَانِهِمْ. وَقَالَ قَتَادَةُ إِذَا قَالَ إِذَا حَمَلْتِ فَأَنْتِ طَالِقٌ. ثَلاَثًا، يَغْشَاهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ مَرَّةً، فَإِنِ اسْتَبَانَ حَمْلُهَا فَقَدْ بَانَتْ. وَقَالَ الْحَسَنُ إِذَا قَالَ الْحَقِي بِأَهْلِكِ. نِيَّتُهُ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الطَّلاَقُ عَنْ وَطَرٍ، وَالْعَتَاقُ مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ إِنْ قَالَ مَا أَنْتِ بِامْرَأَتِي. نِيَّتُهُ، وَإِنْ نَوَى طَلاَقًا فَهْوَ مَا نَوَى. وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلاَثَةٍ عَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ. وَقَالَ عَلِيٌّ وَكُلُّ الطَّلاَقِ جَائِزٌ إِلاَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوهِ.
‏‏‏‏ اسی طرح نشہ یا جنون میں دونوں کا حکم ایک ہونا، اسی طرح بھول چوک سے طلاق دینا یا بھول چوک سے کوئی شرک (بعضوں نے یہاں لفظ «واشك» نقل کیا ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے) کا حکم نکال بیٹھنا یا شرک کا کوئی کام کرنا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام کام نیت صحیح پر ہوتے ہیں اور ہر ایک آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے اور عامر شعبی نے یہ آیت پڑھی «لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا‏» اور اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ وسواسی اور مجنون آدمی کا اقرار صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جو زنا کا اقرار کر رہا تھا۔ کہیں تجھ کو جنون تو نہیں ہے اور علی رضی اللہ عنہ نے کہا جناب امیر حمزہ نے میری اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے (ان کے گوشت کے کباب بنائے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ملامت کرنی شروع کی پھر آپ نے دیکھا کہ وہ نشہ میں چور ہیں۔ ان کی آنکھیں سرخ ہیں۔ انہوں نے (نشہ کی حالت میں) یہ جواب دیا تم سب کیا میرے باپ کے غلام نہیں ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیا کہ وہ بالکل نشے میں چور ہیں، آپ نکل کر چلے آئے، ہم بھی آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا مجنون اور نشہ والے کی طلاق نہیں پڑے گی (اسے ابن ابی شیبہ نے وصل کیا)۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نشے اور زبردستی کی طلاق نہیں پڑے گی (اس کو سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا)۔ اور عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر طلاق کا وسوسہ دل میں آئے تو جب تک زبان سے نہ نکالے طلاق نہیں پڑے گی۔ اور عطاء بن ابی رباح نے کہا اگر کسی نے پہلے ( «انت طالق») کہا اس کے بعد شرط لگائی کہ اگر تو گھر میں گئی تو شرط کے مطابق طلاق پڑ جائے گی۔ اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا اگر کسی نے اپنی عورت سے یوں کہا تجھ کو طلاق بائن ہے اگر تو گھر سے نکلی پھر وہ نکل کھڑی ہوئی تو کیا حکم ہے۔ انہوں نے کہا عورت پر طلاق بائن پڑ جائے گی۔ اگر نہ نکلے تو طلاق نہیں پڑے گی اور ابن شہاب زہری نے کہا (اسے عبدالرزاق نے نکالا)۔ اگر کوئی مرد یوں کہے میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری عورت پر تین طلاق ہیں۔ اس کے بعد یوں کہے جب میں نے کہا تھا تو ایک مدت معین کی نیت کی تھی (یعنی ایک سال یا دو سال میں یا ایک دن یا دو دن میں) اب اگر اس نے ایسی ہی نیت کی تھی تو معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان رہے گا (وہ جانے اس کا کام جانے)۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا (اسے ابن ابی شیبہ نے نکالا) اگر کوئی اپنی جورو سے یوں کہے اب مجھ کو تیری ضرورت نہیں ہے تو اس کی نیت پر مدار رہے گا۔ اور ابراہیم نخعی نے یہ بھی کہا کہ دوسری زبان والوں کی طلاق اپنی اپنی زبان میں ہو گی۔ اور قتادہ نے کہا اگر کوئی اپنی عورت سے یوں کہے جب تجھ کو پیٹ رہ جائے تو تجھ پر تین طلاق ہیں اس کو لازم ہے کہ ہر طہر پر عورت سے ایک بار صحبت کرے اور جب معلوم ہو جائے کہ اس کو پیٹ رہ گیا، اسی وقت وہ مرد سے جدا ہو جائے گی۔ اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی اپنی عورت سے کہا جا اپنے میکے چلی جا اور طلاق کی نیت کی تو طلاق پڑ جائے گی۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا طلاق تو (مجبوری سے) دی جاتی ہے ضرورت کے وقت اور غلام کو آزاد کرنا اللہ کی رضا مندی کے لیے ہوتا ہے۔ اور ابن شہاب زہری نے کہا اگر کسی نے اپنی عورت سے کہا تو میری جورو نہیں ہے۔ اور اس کی نیت طلاق کی تھی تو طلاق پڑ جائے گی اور علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا (جسے بغوی نے جعدیات میں وصل کیا) عمر! کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تین آدمی مرفوع القلم ہیں (یعنی ان کے اعمال نہیں لکھے جاتے) ایک تو پاگل جب تک وہ تندرست نہ ہو، دوسرے بچہ جب تک وہ جوان نہ ہو، تیسرے سونے والا جب تلک وہ بیدار نہ ہو۔ اور علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر ایک کی طلاق پڑ جائے گی مگر نادان، بیوقوف (جیسے دیوانہ، نابالغ، نشہ میں مست وغیرہ) کی طلاق نہیں پڑے گی۔
حدیث نمبر: 5269
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ". قَالَ قَتَادَةُ: إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ، فَلَيْسَ بِشَيْءٍ.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے زرارہ بن اوفی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خیالات فاسدہ کی حد تک معاف کیا ہے، جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے یا اسے زبان سے ادا نہ کرے۔ قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دے دی تو اس کا اعتبار نہیں ہو گا جب تک زبان سے نہ کہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 63  
´وسوسہ قابل مواخذہ نہیں`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لم تعْمل بِهِ أَو تَتَكَلَّم» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سینے میں جو وسوسے پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا ہے اس کی پکڑ نہیں کرے گا۔ جب تک کہ ان وسوسوں کے موافق عمل نہ کرے یا زبان سے کلام نہ کرے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 63]

تخریج:
[صحيح بخاري 2528]،
[صحيح مسلم 331، 332]

فقہ الحدیث:
➊ طیبی شارح مشکوٰۃ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وسوسے کی دو قسمیں ہیں:
اول:
جو بغیر اختیار کے خود بخود دل میں پیدا ہو جاتا ہے، جس میں آدمی کا ذاتی ارادہ شامل نہیں ہوتا۔ یہ وسوسہ تمام شریعتوں میں قابل معافی ہے۔
دوم:
اپنے اختیار اور ذاتی ارادے کے ساتھ دل میں برائی کا تصور پیدا کرنا۔ یہ وسوسہ شریعت محمدیہ میں اس وقت تک قابل معافی ہے، جب تک اس وسوسے والا زبانی اظہار یا جسمانی عمل نہ کر دے۔
➋ امت محمدیہ کو سابقہ امتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 63   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 22  
´دلوں میں آنے والے خیالات پر مواخذہ نہیں`
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے، جب تک وہ انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں یا ان کے متعلق بات نہ کر لیں، درگزر فرمایا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 22]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں جو مختلف خیالات آتے ہیں، ان خیالات پر مواخذہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا جیسا کہ:
ارشاد باری تعالیٰ:
«لاَ يُكَلِّفُ اللهُ نَفسًا» [ البقرة: 286 ]
پھر یہ خیالات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور اگر خیالات گندے کاموں کی طرف دعوت دیں تو ان خیالات کو وساوس کہتے ہیں۔ اور اگر نیکی کی طرف دعوت دیں تو الہامات ہیں۔
لیکن احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب انسان گناہ کا عزم کرتا ہے اور مکمل کوشش کرتا ہے اور اس میں ناکام ہو جائے تو وہ عنداللہ مجرم ہو گا۔ جیسا کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔ عرض کیا گیا: یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے) مقتول (کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی خواہش رکھتا تھا۔ [صحيح بخاري، رقم: 8083]
بعض اوقات انسان مجبوراً اپنی زبان سے ایسے کلمات کہتا ہے لیکن دل سے انکا اقرار نہیں کرتا تو ایسے انسان پر بھی مواخذہ نہیں ہےجیسا کہ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعدِ اِيمانِه اِلامَن اُكرِهَ وَ قَلبُه’مُطمَىن بِالاِيمَانِ» [النحل: 106]
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔
اسی طرح بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کا اظہار زبان سے نہ بھی کیا جائے تو اس کی جزا و سزا ملتی ہے۔ مثلاً:
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے محبت کرنا، اللہ ذوالجلال کے شعار کا احترام کرنا ثواب ہے اور اسی طرح برے کام سے نفرت کرنا بھی ثواب ہے۔ ان کا تعلق دل سے ہی ہے۔ اگر انسان اظہار نہ بھی کرے تو عنداللہ مجور ہو گا۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 22   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2040  
´دل میں طلاق دینے اور زبان سے کچھ نہ کہنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کر دیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا اسے زبان سے نہ کہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2040]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  انسان کےدل میں مختلف خیالات آتے رہتے ہیں جن میں اچھے خیالات بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی۔
یہ جب تک خیالات کی حدتک رہیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہے۔

(2)
  جب خیال عزم کے درجے پر پہنچ جائے تو نیک عزم کا ثواب ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک شخص برے کام کا پروگرام بناتا ہے لیکن کسی وجہ سے وہ پروگرام ناکام ہوجاتا ہے تو اس نے جس حد تک کوشش کی ہے اس کا گناہ ہوگا، مثلاً:
ایک شخص پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا تو حملہ آور کو گناہ بہر حال ہوگا اگرچہ وہ قتل نہیں کرسکا۔
ارشاد نبوی ہے:
جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں)
جہنم میں جائیں گے۔
عرض کیا گیا:
یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے)
مقتول(کو سزا ملنے)
کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا:
وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی شدید خواہش رکھتا تھا۔ (صحیح البخاري، الفتن، باب إذا التقی المسلمان بسیفیهما، حدیث: 7083)

(3)
  بعض اعمال کا تعلق صرف دل سے ہے، مثلاً محبت، نفرت، خوف وغیرہ، ان میں سے جو چیزدل میں بیٹھ جاتی ہے اور دوسرے اعمال پراثر انداز ہوتی ہے، اس پر ثواب و عذاب ملتا ہے، مثلاً:
اللہ سے محبت، رسول اللہﷺ سے محبت، قرآن کا احترام، یا کسی نیک کام سے نفرت یا کسی نیک آدمی سے بغض وغیرہ۔
ایمان، کفر، اخلاص اور نفاق کا تعلق اسی قسم سے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2040   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 921  
´طلاق کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل کے وسوسہ (پر گرفت و مؤاخذہ) سے درگزر فرما دیا ہے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک کوئی زبان سے نہ کہے اور عمل نہ کرے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 921»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب الطلاق في الإغلاق...، حديث:5269، ومسلم، الإيمان، باب تجاوز الله عن حديث النفس والخواطر بالقلب إذا لم تستقر، حديث:127.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسے قابل مؤاخذہ نہیں‘ مثلاً: کسی کے دل میں عورت کو طلاق دینے کا خیال آیا یا کسی لڑکی سے نکاح کا ارادہ کیا تو محض خیالات اور ارادے سے یہ باتیں واقع نہیں ہو جاتیں‘ البتہ اگر انسان دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں کا عملاً اظہار کرے یا زبان سے اقرار کرے تو یہ قابلِ مؤاخذہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 921   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1183  
´جو شخص دل میں اپنی بیوی کی طلاق کا خیال لائے تو کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جو دل میں آتے ہیں معاف فرما دیا ہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1183]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ دل میں پیداہونے والے خیالات اورگزرنے والے وسوسے مؤاخذہ کے قابل گرفت نہیں،
مثلاً کسی کے دل میں کسی لڑکی سے شادی یا اپنی بیوی کوطلاق دینے کاخیال آئے تومحض دل میں خیال آنے سے یہ باتیں واقع نہیں ہوں گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1183   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2209  
´دل میں طلاق کے خیال آنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کر دیا ہے جنہیں وہ زبان پر نہ لائے یا ان پر عمل نہ کرے، اور ان چیزوں کو بھی جو اس کے دل میں گزرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2209]
فوائد ومسائل:
محض خیال کرنے سے یا دل میں پیچ وتاب کھاتے ہوئے طلاق دینا جبکہ زبان سے کچھ نہ بولا ہو طلاق نہیں ہوتی۔
لیکن اپنے ان جذبات وخیالات کو کسی واضح تحریر میں نقل کریا ہو تو طلاق ہوجائے گی کیونکہ ہاتھ کا لکھنا عمل ہے۔
خواہ بیوی کو تحریر دے یا دیے بغیر ہی ضائع کردے تو طلاق ہوجائے گی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2209   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5269  
5269. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے میری امت سے ان خیالات کو معاف کر دیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوں جب تک ان کے مطابق عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔ قتادہ نے کہا: اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5269]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ ایک دیوانی عورت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر آئے، اس کو زنا سے حمل رہ گیا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کرنا چاہا۔
اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا ألم تعلم أن القلم رفع عن ثلاثة الخ، جس پر ایک روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لولا علي لھلك عمر اللہ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بے نفسی و حق پژوہی۔
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور گراں مہر باندھنے سے منع کر رہے تھے، ایک عورت نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی (وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا)
(النساء: 20)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر فرمایا کہ عمر سے بڑھ کر سب لوگ سمجھدار ہیں، یہاں تک کہ عورتیں بچے بھی عمر سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔
کوئی حق شناسی اور انصاف پروری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سیکھے جہاں کسی نے کوئی معقول بات کہی، یا قرآن یا حدیث سے کوئی معقول بات کہی قرآن یا حدیث سے سند پیش کی انہوں نے فوراً مان لی، سر تسلیم جھکا دیا، کبھی اپنی بات کی پچ نہ کی نہ اپنے علم و فضل پرغرہ کیا اور ہمارے زمانہ میں تو مقلدین بے انصاف کا یہ حال ہے کہ ان کو سینکڑوں احادیث اور آیتیں سناؤ جب بھی نہیں مانتے، اپنے امام کی پچ کئے جاتے ہیں اور قرآن و حدیث کی تاویل کرتے ہیں۔
کہو اس کی ضرورت ہی کیا آن پڑی ہے، کیا یہ ائمہ کرام پیغمبروں کی طرح معصوم تھے کہ ان کا ہر قول واجب التسلیم ہو۔
پھرہم امام ہی کے قول کی تاویل کیوں نہ کریں کہ شاید ان کا مطلب دوسرا ہوگا یا ان کو یہ حدیث نہ پہنچی (وحیدی)
اماموں سے غلطی ممکن ہے اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرے وہ معصوم عن الخطا نہیں تھے، ان کا احترام اپنی جگہ پر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5269   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5269  
5269. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے میری امت سے ان خیالات کو معاف کر دیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوں جب تک ان کے مطابق عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔ قتادہ نے کہا: اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5269]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کسی کے دل میں طلاق دینے کا خیال پیدا ہوا تو محض خیال و وسوسے سے طلاق واقع نہیں ہو گی۔
اس قسم کی طلاق کو خیالی طلاق کہتے ہیں۔
اس قسم کی طلاق واقع ہونے کی دوشرطیں ہیں:
٭دل کے خیالات کو کاغذ پر تحریر کر دے، یعنی خیالات کو عمل میں لے آئے۔
٭دل کے وسوسے کو زبان پر لے آئے، یعنی انھیں کلام کی شکل دے دے۔
اگر طلاق کو ہوا یا پانی پر لکھا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ ہوا یا پانی پر لکھنے کی حیثیت بھی خیالات و وساوس کی ہے۔
(2)
حدیث النفس، وسوسے کو کہتے ہیں، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوتا، البتہ ابن سیرین اس قسم کی طلاق واقع ہونے کے قائل ہیں۔
مذکورہ حدیث سے ان حضرات کی تردید مقصود ہے۔
(فتح الباري: 488/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5269