صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
18. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ البقرہ میں یوں فرمانا کہ اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں اور یقیناً مومنہ لونڈی مشرکہ عورت سے بہتر ہے گو مشرک عورت تم کو بھلی لگے۔
حدیث نمبر: 5285
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ نِكَاحِ النَّصْرَانِيَّةِ، وَالْيَهُودِيَّةِ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ الْمُشْرِكَاتِ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَلَا أَعْلَمُ مِنَ الْإِشْرَاكِ شَيْئًا أَكْبَرَ مِنْ أَنْ تَقُولَ الْمَرْأَةُ: رَبُّهَا عِيسَى وَهُوَ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر یہودی یا انصاری عورتوں سے نکاح کے متعلق سوال کیا جاتا تو وہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں سے نکاح مومنوں کے لیے حرام قرار دیا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہو گا کہ ایک عورت یہ کہے کہ اس کے رب عیسیٰ علیہ السلام ہیں حالانکہ وہ اللہ کے مقبول بندوں میں سے ایک مقبول بندے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5285  
5285. سدنا نافع سے روایت ہے کہ جب سیدنا ابن عمر ؓ سے نصرانیہ اور یہودیہ عورت سے نکاح کے متعلق سوال کیا جاتا تو وہ کہتے: یقیناً اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کے لیے مشرک عورت سے نکاح حرام قرار دیا ہے اور میں اسے بڑا کوئی شرک نہیں جانتا کہ عورت کہے: اس کا رب عیسٰی ہے، حالانکہ وہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5285]
حدیث حاشیہ:
یہ خاص ابن عمر رضی اللہ عنہما کی رائے تھی۔
دوسرے سلف نے ان کا خلاف کیا ہے۔
شاید ابن عمر رضی اللہ عنہما سورۃ مائدہ کی اس آیت ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ﴾ (المائدة: 5)
کو منسوخ سمجھتے ہوں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سورۃ بقرہ کی یہ آیت ﴿وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ﴾ (البقرة: 221)
سورۃ مائدہ کی آیت سے منسوخ ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنھما کے سوا اور کوئی اس کا قائل نہیں ہوا کہ یہودی یا نصرانی عورت سے نکاح نا جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی میلان ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قول کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
عطاء نے کہا یہودی یا نصرانی عورت سے نکاح درست ہے اور بہت سے صحابہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5285   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5285  
5285. سدنا نافع سے روایت ہے کہ جب سیدنا ابن عمر ؓ سے نصرانیہ اور یہودیہ عورت سے نکاح کے متعلق سوال کیا جاتا تو وہ کہتے: یقیناً اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کے لیے مشرک عورت سے نکاح حرام قرار دیا ہے اور میں اسے بڑا کوئی شرک نہیں جانتا کہ عورت کہے: اس کا رب عیسٰی ہے، حالانکہ وہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5285]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ انفرادی رائے ہے، دیگر صحابہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک سورۂ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت کریمہ سورۂ مائدہ کی درج ذیل آیت سے منسوخ ہے:
اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی حلال ہیں۔
(المائدة: 5/5)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان سے بچنے کی تلقین کرتے تھے لیکن انھیں حرام قرار نہیں دیتے تھے۔
(2)
شاید امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی ہو کہ اہل کتاب مشرک عورتوں سے نکاح جائز نہیں، حالانکہ بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ انھوں نے اہل کتاب خواتین سے نکاح کیا۔
ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مسلمانوں کو عار دلانا چاہتے ہوں کہ وہ ایسی عورتوں سے نکاح کرتے ہیں جن کا دامن شرک سے آلودہ ہے۔
ایسے حالات میں بیوی خاوند کے درمیان ہم آہنگی کیسے ہوسکے گی اور ان میں محبت و الفت کیونکر پیدا ہوسکے گی۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فتوی نہیں بلکہ ان سے دور رہنے کا مشورہ ہے کہ اس قسم کے میاں بیوی میں اتفاق و یگانگت پیدا نہیں ہوگی جو نکاح کے اہم مقاصد سے ہے۔
یہ تاویل اس لیے ضروری ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی طرف شذوذ کی نسبت نہ ہو۔
واللہ اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5285