صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
33. بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ:
باب: حاکم لعان کرنے والوں سے یہ کہنا تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرتا ہے؟
حدیث نمبر: 5312
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ حَدِيثِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ:" حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا، قَالَ: مَالِي؟ قَالَ: لَا مَالَ لَكَ إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ"، قَالَ سُفْيَانُ: حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو. وَقَالَ أَيُّوبُ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ لَاعَنَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ، وَفَرَّقَ سُفْيَانُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى، فَرَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ:" اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ"، قَالَ سُفْيَانُ: حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو وأَيُّوبَ كَمَا أَخْبَرْتُكَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کرنے والوں کا حکم پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہارا حساب تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ اب تمہیں تمہاری بیوی پر کوئی اختیار نہیں۔ ان صحابی نے عرض کیا کہ میرا مال واپس کرا دیجئیے (جو مہر میں دیا گیا تھا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب وہ تمہارا مال نہیں ہے۔ اگر تم اس کے معاملہ میں سچے ہو تو تمہارا یہ مال اس کے بدلہ میں ختم ہو چکا کہ تم نے اس کی شرمگاہ کو حلال کیا تھا اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی پھر تو وہ تم سے بعید تر ہے۔ سفیان نے بیان کیا کہ یہ حدیث میں نے عمرو سے یاد کی اور ایوب نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جس نے اپنی بیوی سے لعان کیا ہو تو آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کیا۔ سفیان نے اس اشارہ کو اپنی دو شہادت اور بیچ کی انگلیوں کو جدا کر کے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی عجلان کے میاں بیوی کے درمیان جدائی کرائی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا وہ رجوع کر لے گا؟ آپ نے تین مرتبہ یہ فرمایا۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان بن عیینہ نے مجھ سے کہا، میں نے یہ حدیث جیسے عمرو بن دینار اور ایوب سے سن کر یاد رکھی تھی ویسی ہی تجھ سے بیان کر دی۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 371  
´لعان کا بیان`
«. . . 232- وبه: أن رجلا لاعن امرأته فى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما وألحق الولد بالمرأة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر اس عورت کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی اور بچہ ماں کو سونپ دیا یعنی بچہ ماں کی طرف منسوب ہوا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 371]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5315، ومسلم 8/1494، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ لعان کیلئے دیکھئے: حدیث سابق: 6
➋ لعان شدہ عورت کے بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف ہوتی ہے۔ اس بچے کو اس عورت کے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا لہٰذا یہ بچہ لعان والے باپ کی وراثت کا حقدار نہیں ہوتا اور نہ اس کا باپ اس کا وارث ہوتا ہے بلکہ اس کی ماں عصبہ ہوتی ہے۔
➌ صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی لہٰذا جدائی کا سبب طلاق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے لیکن یہ قول محل نظر ہے۔
➍ جو شخص اپنی بیوی سے لعان کر تا ہے اور اس پر زنا کی تہمت لگا تا ہے تو اس شخص پر حد قذف نہیں لگتی۔
➎ قول راجح میں زنا کا عینی گواہ قاذف کے حکم میں نہیں ہے اگر چہ چار کا نصاب بھی پورا نہ ہو۔
➏ حاکم پر لازم ہے کہ شرعی احکامات طاقت سے نافذ کرے۔
➐ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور لعان نہ کرے تو اسے (شوہر کو) کوڑے لگیں گے۔ دیکھئے: [التمهيد 15/38 بحواله ابن ابي شيبه عن الشعبي وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 232   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2069  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی سے لعان کیا، اور اس کے بچے کا انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور بچہ کو ماں کو دیدیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2069]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لعان سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد یہ مرد اس عورت سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا۔

(2)
  لعان کی صورت میں عورت کا خاوند بچے کا باپ نہیں کہلائے گا۔
بچہ اس مرد کا وارث بھی نہیں ہوگا، البتہ عورت کےماں ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لیے وہ اپنی ماں اور ننھیالی رشتے داروں کا وارث ہوگا اور وہ اس کے وارث ہوں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2069   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1202  
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا: ابن جبیر! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1202]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لعان کا حکم آیت کریمہ ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء﴾ (النور: 6) میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجازکے سامنے پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کرگواہی دے کہ میں سچا ہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو،
اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چاربار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اورپانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہرسچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو،
ایسا کہنے سے شوہر حد قذف (زناکی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اوربیوی زنا کی سزاسے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1202   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2257  
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا: تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں، اس پر اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2257]
فوائد ومسائل:
لعان کی صورت میں شوہرکوحق سے کچھ نہیں ملے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2257   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5312  
5312. سیدنا سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں سیدنا ابن عمر ؓ سے لعان کرنے والوں کا حکم پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے لعان کرنے والوں سے فرمایا تھا: تمہارا حساب تو اللہ تعالٰی کے ذمے ہے لیکن تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ اب تمہاری بیوی پر تمیں کوئی اختیار نہیں رہا۔ اس نے عرض کی: میرے مال کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اب وہ تمہارا مال نہیں رہا۔ اگر تم اس معاملے میں سچے ہوتو تمہارا یہ مال، اس کے بدلے میں ختم ہو چکا ہے جو تم نے اس کی شرم گاہ کو اپنے لیے حلال کیا تھا۔ اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو یہ مال تجھ سے اور زیادہ دور ہوگیا ہے۔ سفیان نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے یاد کی۔ ایوب نے کہا: میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عمر ؓ سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جس نے اپنی بیوی سے لعان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5312]
حدیث حاشیہ:
حاصل یہ ہوا کہ سفیان نے اس حدیث کو عمرو بن دینار اور ایوب سختیانی دونوں سے روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5312   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5312  
5312. سیدنا سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں سیدنا ابن عمر ؓ سے لعان کرنے والوں کا حکم پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے لعان کرنے والوں سے فرمایا تھا: تمہارا حساب تو اللہ تعالٰی کے ذمے ہے لیکن تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ اب تمہاری بیوی پر تمیں کوئی اختیار نہیں رہا۔ اس نے عرض کی: میرے مال کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اب وہ تمہارا مال نہیں رہا۔ اگر تم اس معاملے میں سچے ہوتو تمہارا یہ مال، اس کے بدلے میں ختم ہو چکا ہے جو تم نے اس کی شرم گاہ کو اپنے لیے حلال کیا تھا۔ اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو یہ مال تجھ سے اور زیادہ دور ہوگیا ہے۔ سفیان نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے یاد کی۔ ایوب نے کہا: میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عمر ؓ سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جس نے اپنی بیوی سے لعان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5312]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان اور پیش کی گئی حدیث کا مقصد ہے کہ حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ حالات کے پیش نظر لعان کرنے والوں کو وعظ و نصیحت کرے، لعان سے پہلے بھی کیونکہ ان دونوں کو اس کی سنگینی سے آگاہ کرنا چاہیے آخر ان میں سے ایک تو ضرور جھوٹا ہے، لہٰذا جھوٹے آدمی کو اس اقدام سے بچنا چاہیے اور ایک بے گناہ اور معصوم پر تہمت زنا سے باز رہنا چاہیے اور لعان کے بعد بھی وہ اپنا دعوت و ارشاد کا فریضہ ادا کرے تا کہ اگر کسی نے جھوٹ بولا ہےتو اس سے توبہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کا سامان کرے۔
(2)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں لعان سے پہلے اور بعد میں وعظ کرنے کے دونوں احتمال ہیں، البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ یہ وعظ لعان سے پہلے ہونا چاہیے کیونکہ جب لعان سے متعلقہ آیات اتریں تو آپ نے ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور اس کی بیوی کو بلایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔
کیا تم میں سے کوئی تائب ہوگا؟ یہ وعظ سن کر حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتا ہوں کہ میں سچا ہوں۔
(فتح الباري: 568/9)
بہرحال لعان کرنے والوں کو وعظ و نصیحت لعان سے پہلے اور لعان کے بعد دونوں وقت کرنی چاہیے شاید ان میں سے کسی کے دل میں بات اتر جائے اور اپنے گناہ کی تلافی کرے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5312