صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
52. بَابُ الْمَهْرِ لِلْمَدْخُولِ عَلَيْهَا:
باب: جس عورت سے صحبت کی اس کا پورا مہر واجب ہو جانا۔
وَكَيْفَ الدُّخُولُ، أَوْ طَلَّقَهَا قَبْلَ الدُّخُولِ وَالْمَسِيسِ.
‏‏‏‏ اور صحبت کے کیا معنی ہیں اور دخول اور مساس سے پہلے طلاق دے دینے کا حکم (جماع کرنا یا خلوت ہو جانا)۔
حدیث نمبر: 5349
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ:" رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: فَرَّقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ: اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ فَأَبَيَا، فَقَالَ: اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا"، قَالَ أَيُّوبُ: فَقَالَ لِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: فِي الْحَدِيثِ شَيْءٌ لَا أَرَاكَ تُحَدِّثُهُ، قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ: مَالِي؟ قَالَ: لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا، فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهُوَ أَبْعَدُ مِنْكَ.
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی نے اور ان سے سعید بن کبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی عجلان کے میاں بیوی میں جدائی کرا دی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا وہ رجوع کرے گا؟ لیکن دونوں نے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے اسے جو تم میں سے ایک جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے یا نہیں؟ لیکن دونوں نے پھر توبہ سے انکار کیا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی کرا دی۔ ایوب نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن دینار نے کہا کہ یہاں حدیث میں ایک چیز اور ہے میں نے تمہیں اسے بیان کرتے نہیں دیکھا۔ وہ یہ ہے کہ (تہمت لگانے والے) شوہر نے کہا تھا کہ میرا مال (مہر) دلوا دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ وہ تمہارا مال ہی نہیں رہا، اگر تم سچے بھی ہو تو تم اس سے خلوت کر چکے ہوا اور اگر جھوٹے ہو تب تو تم کو بطریق اولیٰ کچھ نہ ملنا چاہیئے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 371  
´لعان کا بیان`
«. . . 232- وبه: أن رجلا لاعن امرأته فى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما وألحق الولد بالمرأة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر اس عورت کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی اور بچہ ماں کو سونپ دیا یعنی بچہ ماں کی طرف منسوب ہوا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 371]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5315، ومسلم 8/1494، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ لعان کیلئے دیکھئے: حدیث سابق: 6
➋ لعان شدہ عورت کے بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف ہوتی ہے۔ اس بچے کو اس عورت کے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا لہٰذا یہ بچہ لعان والے باپ کی وراثت کا حقدار نہیں ہوتا اور نہ اس کا باپ اس کا وارث ہوتا ہے بلکہ اس کی ماں عصبہ ہوتی ہے۔
➌ صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی لہٰذا جدائی کا سبب طلاق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے لیکن یہ قول محل نظر ہے۔
➍ جو شخص اپنی بیوی سے لعان کر تا ہے اور اس پر زنا کی تہمت لگا تا ہے تو اس شخص پر حد قذف نہیں لگتی۔
➎ قول راجح میں زنا کا عینی گواہ قاذف کے حکم میں نہیں ہے اگر چہ چار کا نصاب بھی پورا نہ ہو۔
➏ حاکم پر لازم ہے کہ شرعی احکامات طاقت سے نافذ کرے۔
➐ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور لعان نہ کرے تو اسے (شوہر کو) کوڑے لگیں گے۔ دیکھئے: [التمهيد 15/38 بحواله ابن ابي شيبه عن الشعبي وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 232   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2069  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی سے لعان کیا، اور اس کے بچے کا انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور بچہ کو ماں کو دیدیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2069]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لعان سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد یہ مرد اس عورت سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا۔

(2)
  لعان کی صورت میں عورت کا خاوند بچے کا باپ نہیں کہلائے گا۔
بچہ اس مرد کا وارث بھی نہیں ہوگا، البتہ عورت کےماں ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لیے وہ اپنی ماں اور ننھیالی رشتے داروں کا وارث ہوگا اور وہ اس کے وارث ہوں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2069   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1202  
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا: ابن جبیر! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1202]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لعان کا حکم آیت کریمہ ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء﴾ (النور: 6) میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجازکے سامنے پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کرگواہی دے کہ میں سچا ہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو،
اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چاربار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اورپانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہرسچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو،
ایسا کہنے سے شوہر حد قذف (زناکی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اوربیوی زنا کی سزاسے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1202   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2257  
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا: تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں، اس پر اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2257]
فوائد ومسائل:
لعان کی صورت میں شوہرکوحق سے کچھ نہیں ملے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2257   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5349  
5349. سیدنا سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عمر ؓ سے ایک ایسے شخص کے متعلق سوال کیا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نے قبیلہ بنو عجلان کے میاں بیوی دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی تھی اور فرمایا تھا: اللہ تعالٰی نے خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، کیا تم میں سے کوئی اپنی بات سے رجوع کرتا ہے؟ لیکن دونوں نے اس بات سے انکار کر دیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے کہا تم دونوں میں سے کوئی تائب ہوتا ہے؟ ان دونوں نے پھر انکار کر دیا تو نبی ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی۔ ایوب نے بیان کیا مجھے عمرو بن دینار نے کہا کہ اس حدیث میں ایک مزید بات ہے، میں نے تمہیں وہ بیان کرتے نہیں دیکھا، وہ یہ ہے کہ شوہر نے کہا تھا کہ ایسے حالات میں میرے مال کا کیا بنے گا؟ آپ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5349]
حدیث حاشیہ:
حدیث کے لفظ ''دخلت بھا'' سے نکلا کہ جماع سے مہر واجب ہو تا ہے کیونکہ دوسری روایت میں لفظ ''بما استحللت من فرجھا'' صاف موجود ہے۔
اگر وہ مرد اس عورت سے صحبت نہ کر چکا ہوتا تو بے شک اگر اس نے سارا مہر ادا کر دیا ہوتا تواس کو اس میں سے کچھ یعنی نصف واپس ملتا آخری جملہ کا مطلب ہے کہ تو نے اس عورت سے صحبت بھی کی پھر اسے بد نام بھی کیا۔
اب مال مہر کا سوال ہی کیا ہے؟ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلام میں عورت کی عزت کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اپنی عورت پر جھوٹا الزام لگانا اس کے شوہر کے لیے بہت گناہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5349   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5349  
5349. سیدنا سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عمر ؓ سے ایک ایسے شخص کے متعلق سوال کیا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نے قبیلہ بنو عجلان کے میاں بیوی دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی تھی اور فرمایا تھا: اللہ تعالٰی نے خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، کیا تم میں سے کوئی اپنی بات سے رجوع کرتا ہے؟ لیکن دونوں نے اس بات سے انکار کر دیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے کہا تم دونوں میں سے کوئی تائب ہوتا ہے؟ ان دونوں نے پھر انکار کر دیا تو نبی ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی۔ ایوب نے بیان کیا مجھے عمرو بن دینار نے کہا کہ اس حدیث میں ایک مزید بات ہے، میں نے تمہیں وہ بیان کرتے نہیں دیکھا، وہ یہ ہے کہ شوہر نے کہا تھا کہ ایسے حالات میں میرے مال کا کیا بنے گا؟ آپ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5349]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی سے اگر خلوت ہو جائے تو وہ حق مہر کی حق دار ہو جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر تو سچا ہے تو اس سے خلوت کر چکا ہے، لہذا دیا ہوا حق مہر اب تیرا نہیں رہا اور اگر تو جھوٹا ہے تو پھر بھی حق مہر کا مطالبہ فضول ہے کیونکہ تو نے اس سے خلوت بھی کی اور پھر الٹا اسے تہمت لگا کر بدنام کیا، اب تو حق مہر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(2)
دخلت بها کے الفاظ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ خلوت ہی سے وہ عورت حق مہر کی مالک بن جائے گی جبکہ دوسرے حضرات کا موقف ہے کہ عورت تو باہمی ملاپ سے حق مہر کی حق دار ہو گی کیونکہ حدیث کی ایک روایت میں ہے کہ تو نے اس کی شرمگاہ کو اپنے لیے حلال سمجھا، اس لیے تو حق مہر واپس لینے کا مجاز نہیں ہے اور اگر خلوت صحیحہ یا ملاپ ہو چکا ہے تو پورا حق مہر اسے ملے گا اور اسے پوری عدت گزارنی ہو گی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5349