صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
3. بَابُ الْبَيْعَةِ عَلَى إِقَامَةِ الصَّلاَةِ:
باب: نماز درست طریقے سے پڑھنے پر بیعت کرنا۔
حدیث نمبر: 524
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَيْسٌ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے، اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 58  
´دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری`
«. . . فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا"، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ . . .»
. . . میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 58]

باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی اور ان کے لیے خیر خواہی اور بخشش کی دعا فرمائی، یہیں سے باب اور ترجمہ کی مناسبت معلوم ہوتی ہے۔
دوسری مناسبت کا ذکر ابن بطال رحمہ اللہ کچھ اس طرح سے فرماتے ہیں:
«ان مقصود البخاري الرد علي من زعم ان الاسلام التوحيد، ولا يدخل فيه الاعمال وهم القدرية» [المتواري ص59]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہاں یہ ہے کہ ان لوگوں کا رد کیا جائے جن کا کہنا ہے کہ اسلام صرف توحید کا نام ہے یعنی اس کا تعلق اعمال کے ساتھ نہیں ہے اور (اس قسم کے عقائد باطلہ کے حامی) قدریہ ہیں۔
حدیث مذکورہ میں اسلام پر بیعت کرنا اور اس میں ہر مسلم کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی نصیحت کی گئی ہے، اور یقیناً اس حدیث کا تعلق ہر عام و خاص کے ساتھ ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذا حديث عظيم الشأن و عليه مدار الاسلام» [شرح كرماني، ج1، ص217]
یہ حدیث عظیم الشان ہے اور اس پر اسلام کا دارومدار ہے۔‏‏‏‏
اس سے بھی باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ:
«الا ان من قبلكم من اهل الكتاب افترقوا علي ثنتين و سبعين ملة وان هذه الملة ستفترق على ثلاث و سعبين ثنتان و سبعون فى النار و واحدة فى الجنة وهى الجماعة» [سنن ابي داؤد كتاب السنه رقم الحديث4097]
خبردار تم سے قبل جو اہل کتاب (یہود و نصریٰ) تھے وہ بہتر 72 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور یہ امت عنقریب تہتر 73 فرقوں میں بٹ جائے گی بہتر 72 جہنمی ہونگیں اور ایک جنتی اور وہی جماعت ہو گی (قرآن و حدیث پر چلنے والی)۔‏‏‏‏
↰ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ امت میں کئی فرقے ہوں گے اور ان میں ان گنت اختلافات پیدا ہوں گے۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ یہ تمام فرقے قرآن و صحیح حدیث کی تعلیمات کی پاداش میں وجود میں نہیں آئیں گے بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے انحراف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوں گے۔

غلط فہمی کا ازالہ:
ایک واضح غلط فہمی جو کہ غیر مسلموں اور مسلموں میں یکساں اور مشترکہ ہے کہ یہ جتنے بھی فرقے شروع ہیں اسلام میں ہیں ان کی اصل وجہ حدیث ہی ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا تھا کہ تہتر 73 فرقے بنیں گے۔
یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ فرقے اور اختلافات احادیث کی وجہ سے پیدا ہوئے، لیکن اگر حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ فرقے بناؤ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پیشں گوئی کی تھی کہ بنیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنانے کا حکم نہیں دیا۔۔۔
اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھیں کہ ایک کلاس روم میں استاد اپنے شاگردوں کو برابر طور پر تعلیم دینے میں مصروف ہے مگر اس کلاس میں ایک بچہ زید ہے جس کو استاد نے یہ تنبیہ کی کہ تم امتحانات میں فیل ہو جاؤ گے اور جب امتحانات ہوئے تو وہ واقعتاً فیل ہو گیا تو بتایئے کہ کیا اسے استاد نے فیل کیا ہے؟ جواب نفی میں ہے استاد نے صرف اسے متنبہ کیا تھا نہ کہ اسے فیل کیا، بالکل اسی طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو متنبہ فرمایا نہ کہ فرقوں میں تقسیم کروایا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 98   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 57  
´الله کے لیے خیر خواہی`
«. . .قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ . . .»
. . . انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 57]

لغوی توضیح:
«النَّصَيْحَة» کا لغوی معنی ہے خالص ہونا۔ قرآن میں «تَوْبَةً نَّصُوْحًا» کا بھی یہی معنی ہے خالص توبہ۔‏‏‏‏ نھایہ میں ہے کہ نصیحت ایسا جامع لفظ ہے کہ اس میں جملہ امور خیر شامل ہیں۔ دین کو بھی نصیحت اسی لیے کہا گیا ہے کہ تمام دینی اعمال کا دارومدار خلوص اور کھوٹ سے پاک ہونے پر ہی ہے۔

فہم الحدیث:
ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، یہ خیرخواہی کس کے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان ان الدين النصيحة: 55، ابوداود: 4944، حميدى: 837]
الله کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ توحید کا راستہ اپنایا جائے اور شرک سے بچا جائے۔ اس کی کتاب کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے بچا جائے۔ اس کے رسول کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ حکمرانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ تمام امور خیر میں ان کی اطاعت کی جائے اور بلاعذر شرعی ان کے خلاف خروج نہ کیا جائے۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے، ان کی اصلاح و فلاح کی اور ان سے ہر قسم کا ضرر و نقصان دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 35   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 58  
´اللہ اور رسول کی خیرخواہی`
«. . . فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا"، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 58]

تشریح:
اللہ اور رسول کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی تعظیم کرے۔ زندگی بھر ان کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑے، اللہ کی کتاب کی اشاعت کرے، حدیث نبوی کو پھیلائے، ان کی اشاعت کرے اور اللہ و رسول کے خلاف کسی پیر و مرشد مجتہد امام مولوی کی بات ہرگز نہ مانے۔
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار . . . مت دیکھ کسی کا قول و کردار
جب اصل ہے تو نقل کیا ہے . . . یاں وہم و خطا کا دخل کیا ہے

حضرت مغیرہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔ انہوں نے انتقال کے وقت حضرت جریر بن عبداللہ کو اپنا نائب بنا دیا تھا، اس لیے حضرت جریر نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اور لوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک کوئی شر و فساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔ شر و فساد کوفہ والوں کی فطرت میں تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ کے بعد زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کے گورنر تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اور بھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور تعصب نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیا ہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔ «غفرالله له آمين»

صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ امام ہمیں یہ بتلا رہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر تعریضات کی ہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کر دی۔ [ایضاح البخاری، ص: 428]

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والنصيحة من نصحة العسل اذا صفيته اومن النصح وهو الخياطة بالنصيحة»
یعنی لفظ «نصيحت» «نصحه العسل» سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کر لیا گیا ہو یا «نصيحت» سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑ جوڑ کر ایک کر دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔ (الحمد للہ کہ کتاب الایمان آج اواخر ذی الحجہ 1386ھ کو بروز یک شنبہ ختم ہوئی۔ راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 58   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1925  
´خیر خواہی اور بھلائی کرنے کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1925]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مالی اور بدنی عبادتوں میں صلاۃ اور زکاۃ سب سے اصل ہیں،
نیز (لاإلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ) کی شہادت واعتراف کے بعد ارکان اسلام میں یہ دونوں (زکاۃ وصلاۃ) سب سے اہم ہیں اسی لیے ان کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ کیاگیا ہے،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ خیر خواہی عام وخاص سب کے لیے ہے،
طبرانی میں ہے کہ جریر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو تین سو درہم کا ایک گھوڑا خریدنے کا حکم دیا،
غلام گھوڑے کے ساتھ گھوڑے کے مالک کو بھی لے آیا،
جریر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارا گھوڑا تین سودرہم سے زیادہ قیمت کا ہے،
کیا اسے چارسو میں بیچوگے؟ وہ راضی ہوگیا،
پھر آپ نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ قیمت کا ہے کیا پانچ سودرہم میں فروخت کروگے،
چنانچہ وہ راضی ہوگیا،
پھر اسی طرح اس کی قیمت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ اسے آٹھ سو درہم میں خریدا،
اس سلسلہ میں ان سے عرض کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ پر ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی بیعت کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1925   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:524  
524. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کی خیرخواہی کرنے پر بیعت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:524]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان ابواب میں نماز اور اوقات نماز کی اہمیت کو بیان کیا جارہا ہے۔
نماز کا معاملہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام پر بیعت لینے کے بعد نماز کی بروقت ادائیگی کےلیے بیعت لی جاتی۔
اسلام لانے کے بعد بندہ مسلم کے لیے پہلی ذمے داری نماز کی ادائیگی ہے، کیونکہ یہ بدنی عبادات کی اصل ہے، پھر دیانت داری کے ساتھ زکاۃ ادا کرنا ہے، کیونکہ یہ مالی عبادات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے خصوصیت کے ساتھ انھیں ادا کرنے کے متعلق بیعت لی جاتی۔
رسول اللہ ﷺ مخاطب کے حالات پربھی نظر رکھتے تھے، جس چیز کی اسے ضرورت ہوتی اس کا حکم دیتے۔
(2)
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ اپنی قوم کے سردار تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کی تعلیم دی۔
اسی طرح وفد عبدالقیس کا تعلق مجاہدین سے تھا اور کفار مضر سے ان کے معرکے ہوتے رہتے تھے، اس لیے آپ نے انھیں مال غنیمت سے خمس ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 524