صحيح البخاري
كِتَاب النَّفَقَاتِ -- کتاب: خرچہ دینے کے بیان میں
3. بَابُ حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ قُوتَ سَنَةٍ عَلَى أَهْلِهِ، وَكَيْفَ نَفَقَاتُ الْعِيَالِ:
باب: مرد کا اپنے بچوں کے لیے ایک سال کا خرچ جمع کرنا جائز ہے اور جورو بچوں پر کیوں کر خرچ کرے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 5358
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ،" وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ذَكَرَ لِي ذِكْرًا مِنْ حَدِيثِهِ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ مَالِكٌ: انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ إِذْ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وعَبْدِ الرَّحْمَنِ والزُّبَيْرِ وسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ، قَالَ: فَدَخَلُوا وَسَلَّمُوا، فَجَلَسُوا، ثُمَّ لَبِثَ يَرْفَا قَلِيلًا، فَقَالَ لِعُمَرَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلَا سَلَّمَا وَجَلَسَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، فَقَالَ الرَّهْطُ: عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدُوا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ، قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ، فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالَا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ اللَّهُ: مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ إلَى قَوْلِهِ: قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6 فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ، فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ لِعَلِيٍّ وعَبَّاسٍ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ، فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ يَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ، وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ، تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَذَا وَكَذَا وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأَبِي بَكْرٍ، فَقَبَضْتُهَا، سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَأَتَى هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ بِهِ فِيهَا مُنْذُ وُلِّيتُهَا وَإِلَّا فَلَا تُكَلِّمَانِي فِيهَا، فَقُلْتُمَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا بِذَلِكَ، فَدَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ؟ فَقَالَ الرَّهْطُ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ؟ فَوَالَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا فَأَنَا أَكْفِيَكُمَاهَا.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی (ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ) محمد بن جبیر بن مطعم نے اس کا بعض حصہ بیان کیا تھا، اس لیے میں روانہ ہوا اور مالک بن اوس کی خدمت میں پہنچا اور ان سے یہ حدیث پوچھی۔ مالک نے مجھ سے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے دربان یرفاء ان کے پاس آئے اور کہا عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن، زید اور سعد رضی اللہ عنہم (آپ سے ملنے کی) اجازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اس کی اجازت دیں گے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اندر بلا لو۔ چنانچہ انہیں اس کی اجازت دے دی گئی۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ سب اندر تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یرفاء نے تھوڑی دیر کے بعد پھر عمر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما بھی ملنا چاہتے ہیں کیا آپ کی طرف سے اجازت ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بھی اندر بلانے کے لیے کہا۔ اندر آ کر ان حضرات نے بھی سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ اس کے بعد عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین میرے اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ دوسرے صحابہ عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بھی کہا کہ امیرالمؤمنین ان کا فیصلہ فرما دیجئیے اور انہیں اس الجھن سے نجات دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جلدی نہ کرو میں اللہ کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم انبیاء وفات کے وقت چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ خود اپنی ذات کی طرف تھا۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا میں اللہ کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ سے اس معاملہ میں بات کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال (مال فے) میں مختار کل ہونے کی خصوصیت بخشی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اس میں سے کسی دوسرے کو کچھ نہیں دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا «ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل‏» سے «قدير‏» تک۔ اس لیے یہ (چار خمس) خاص آپ کے لیے تھے۔ اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اس مال کو اپنے لیے خاص نہیں کر لیا تھا اور نہ تمہارا کم کر کے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے رکھا تھا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تم سب میں اس کی تقسیم کی آخر میں جو مال باقی رہ گیا تو اس میں سے آپ اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچ لیتے اور اس کے بعد جو باقی بچتا اسے اللہ کے مال کے مصرف ہی میں (مسلمانوں کے لیے) خرچ کر دیتے۔ آپ نے اپنی زندگی بھر اسی کے مطابق عمل کیا۔ اے عثمان! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تمہیں یہ معلوم ہے؟ سب نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ جی ہاں معلوم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی وفات کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق اس میں عمل کیا۔ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر انہوں نے کہا۔ آپ دونوں اس وقت موجود تھے، آپ خوب جانتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں مخلص، محتاط و نیک نیت اور صحیح راستے پر تھے اور حق کی اتباع کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات کی اور اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشین ہوں۔ میں دو سال سے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لیے ہوئے ہوں اور وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کیا تھا۔ اب آپ حضرات میرے پاس آئے ہیں، آپ کی بات ایک ہی ہے اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) آئے اور مجھ سے اپنے بھتیجے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وراثت کا مطالبہ کیا اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) آئے اور انہوں نے اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کے ترکہ کا مطالبہ کیا۔ میں نے آپ دونوں سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو یہ جائیداد دے سکتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آپ پر اللہ کا عہد واجب ہو گا۔ وہ یہ کہ آپ دونوں بھی اس جائیداد میں وہی طرز عمل رکھیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا، جس کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا اور جب سے میں اس کا والی ہوا ہوں، میں نے جو اس کے ساتھ معاملہ رکھا۔ اور اگر یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر آپ مجھ سے اس بارے میں گفتگو چھوڑیں۔ آپ لوگوں نے کہا کہ اس شرط کے مطابق وہ جائیداد ہمارے حوالہ کر دو اور میں نے اسے اس شرط کے ساتھ تم لوگوں کے حوالہ کر دیا۔ کیوں عثمان اور ان کے ساتھیو! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں میں نے اس شرط ہی پر وہ جائیداد علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے قبضہ میں دی ہے نا؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا میں نے آپ دونوں کے حوالہ وہ اس شرط کے ساتھ کی تھی؟ دونوں حضرات نے فرمایا کہ جی ہاں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیا آپ حضرات اب اس کے سوا مجھ سے کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں؟ اس ذات کی قسم ہے جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں اس کے سوا میں کوئی اور فیصلہ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ اب لوگ اس کی ذمہ داری پوری کرنے سے عاجز ہیں تو مجھے واپس کر دیں میں اس اس کا بندوبست آپ ہی کر لوں گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5358  
5358. سیدنا امام ابن شہاب زہری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی جبکہ (اس سے پہلے) محمد بن جبیر بن معطم نے مجھ سے اس حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا تھا پھر میں خود سیدنا مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کی بابت پوچھا تو حضرت مالک بن اوس بن حدثان نے کہا کہ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس دوران میں ان کے چوکیدار جناب یرفا ان کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا زبیر، اور سیدنا سعد‬ ؓ ا‬جازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: ہاں انہیں اجازت ہے، چنانچہ انہیں اجازت دی گئی تو وہ اندر آئے اورسلام کر کے بیٹھ گئے سیدنا یرفا نے تھوڑی دیر کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے پاس آ کر عرض کیا: سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5358]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں مال خمس میں سے اپنے اہل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل منقول ہے کہ آپ اس میں سے سال بھر کا خرچہ رکھ لیا کرتے تھے۔
یہی باب اور حدیث میں مطابقت ہے۔
آخری جملہ کا مطلب یہ کہ تم چاہو کہ میں ذاتی ملک املاک کی طرح یہ جائیداد تم دونوں میں تقسیم کر دوں یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ تم سب کو خوب معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ)
ہمارا ترکہ ایک صدقہ ہوتا ہے جس کا کوئی خاص وارث نہیں ہو سکتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5358   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5358  
5358. سیدنا امام ابن شہاب زہری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی جبکہ (اس سے پہلے) محمد بن جبیر بن معطم نے مجھ سے اس حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا تھا پھر میں خود سیدنا مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کی بابت پوچھا تو حضرت مالک بن اوس بن حدثان نے کہا کہ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس دوران میں ان کے چوکیدار جناب یرفا ان کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا زبیر، اور سیدنا سعد‬ ؓ ا‬جازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: ہاں انہیں اجازت ہے، چنانچہ انہیں اجازت دی گئی تو وہ اندر آئے اورسلام کر کے بیٹھ گئے سیدنا یرفا نے تھوڑی دیر کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے پاس آ کر عرض کیا: سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5358]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما دوبارہ اس غرض سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے کہ وہ جائیداد دونوں کے درمیان مشترک تھی اور شراکت کی وجہ سے آئے دن ان کے جھگڑے رہتے تھے، اس لیے ان کا مطالبہ تھا کہ یہ جائیداد ہمارے درمیان تقسیم کر دی جائے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر تقسیم کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ اگر اسے تقسیم کر دیا گیا تو زمانہ گزرنے پر ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ دونوں کی اولادیں اس جائیداد کی ملکیت کا دعویٰ کر دیں۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد کہے کہ یہ جائیداد اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی تھی، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کہے کہ یہ ہماری جدہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حصہ ہے جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تھا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اسے تقسیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ان حضرات کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ طعام کا ذخیرہ کرنا توکل کے خلاف ہے، لہذا یہ ناجائز ہے۔
جب سید المتوکلین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال کے لیے طعام ذخیرہ کرتے تھے تو اس کے جائز ہونے میں کیا شک و شبہ ہو سکتا ہے اور ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں بلکہ یہ تو خالص ایک انتظامی معاملہ ہے جس سے گھر کا نظام چلانا مقصود ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراخدلی اور سخاوت اس حد تک تھی کہ بعض اوقات سال بھر کے لیے جمع کیا ہوا مال سال پورا ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا کیونکہ وہ ضرورت مندوں کو دے دیتے، پھر گھر کا نظام چلانے کے لیے کسی سے ادھار لیتے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے آخری حصے میں ایک یہودی سے چند وسق جو لیے اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی، لیکن عمر نے وفا نہ کی، ادائیگی سے پہلے ہی آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو جو کی ادائیگی کر کے وہ زرہ واپس لی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کی۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ایک حدیث کا مطلب واضح کیا ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کل کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔
اس عنوان کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے علاوہ دوسروں کے لیے ذخیرہ کر لیتے تھے۔
اگرچہ اس میں آپ خود بھی شریک ہوتے لیکن اپنی ذات کے لیے کچھ بھی ذخیرہ نہ کرتے تھے۔
(فتح الباری: 624/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5358