صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
6. بَابُ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ كَفَّارَةٌ:
باب: اس بیان میں کہ پانچوں وقت کی نمازیں گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں۔
حدیث نمبر: 528
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَا تَقُولُ ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ، قَالُوا: لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا، قَالَ: فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا".
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز بن محمد دراوردی نے یزید بن عبداللہ کی روایت سے، انہوں نے محمد بن ابراہیم تیمی سے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 463  
´پنج وقتہ نمازوں کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کے دروازے پر کوئی نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو، کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی رہے گا، لوگوں نے کہا: کچھ بھی میل باقی نہیں رہے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اسی طرح پانچوں نمازوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 463]
463 ۔ اردو حاشیہ:
➊اگرچہ اہل علم کی ایک جماعت نے یہاں «خَطَايَا» سے مراد صغائر لیے ہیں لیکن یہ حدیث کے ظاہر مفہوم کے موافق نہیںخطایا میں عموم ہے، خواہ صغائر ہوں یا کبائر کیونکہ اللہ کی رحمت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
➋توبہ اگرچہ ایک سبب مغفرت ہے لیکن بخشش صرف اسی پر موقوف نہیں کہ اس کے بغیر بخشش ہو ہی نہیں سکتی۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ سچی توبہ سے بخشش یقینی ہو جاتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 463   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2868  
´پانچوں نمازوں کی مثال۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا بتاؤ تو صحیح، اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اس نہر میں ہر دن پانچ بار نہائے تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل رہے گا؟ صحابہ نے کہا: اس کے جسم پر تھوڑا بھی میل نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا: یہی مثال ہے پانچوں نمازوں کی، ان نمازوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأمثال/حدیث: 2868]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ نماز کی ادائیگی سے انسان صغیرہ گناہوں سے پاک وصاف ہوتا رہتا ہے،
لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ سنت کے مطابق نماز ادا کی جائے،
اور نماز کو نماز سمجھ کر پڑھا جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2868   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:528  
528. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر کوئی نہر جاری ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ کام اس پر کچھ بھی میل کچیل چھوڑے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ایسا کرنے سے کچھ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا: پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:528]
حدیث حاشیہ:
(1)
مرجیہ نے اس حدیث کے ظاہر سے یہ استدلال کیا ہے کہ افعال خیر سے کبیرہ اور صغیرہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، لیکن جمہور اہل سنت کا موقف ہے کہ ان سے صرف صغائر معاف ہوتے ہیں، کیونکہ اس حدیث میں اگرچہ اطلاق و عموم ہے لیکن دوسری حدیث نے اسے مقید اور خاص کردیا ہے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ پانچوں نمازیں، جمعہ جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتے ہیں، بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 552(233)
جامع تر مذی کی ایک روایت ہے کہ پانچوں نمازیں اور جمعہ جمعے تک، درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ ہیں بشرطیکہ کبائر کا ارتکاب نہ کیا جائے۔
(جامع الترمذي، الصلاة،حدیث: 214) (2)
اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:
نماز، گناہوں کا کفارہ ہے۔
اس سے مراد نماز کا یہ خاصا بتانا مقصود تھا کہ یہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ نماز فرض ہو یا نفل۔
اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو کام بندے کہ فرائض اور ذمے داری میں شامل ہیں، ان کی ادائیگی سے انسان مستحق اجر تو ہو سکتا ہے یا اللہ کی ناراضی سے محفوظ رہتا ہے، اس کے علاوہ مزید انعام واکرام کا سزاوار ہو نا ضروری نہیں۔
امام بخاری ؒ مذکورہ باب اسی وہم کو دور کرنے کے لیے لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں، فرض نماز میں تو کفارۂ سیئات بننے کی نفل نماز سے زیادہ صلاحیت ہے کیونکہ نفل اعمال سے فرض اعمال کی اہمیت اللہ کے ہاں زیادہ ہے اور فرائض اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں، جیساکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ میرا بندہ فرائض کی ادائیگی سے جو میرا قرب حاصل کرتا ہے وہ مجھے زیادہ محبوب ہے۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6502) (3)
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہ عنوان بایں الفاظ ہے:
پانچوں نمازوں کو اگر بروقت ادا کیا جائے تو گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں، خواہ باجماعت ہوں یا بےجماعت۔
اس عنوان پر بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ امام صاحب کو ''غيرها'' کے الفاظ نہیں لانے چاہیے تھے، کیونکہ ان سے نماز باجماعت کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔
یہ اعتراض برمحل نہیں ہے، کیونکہ امام صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز باجماعت نہ پڑھ سکے تو انفرادی طور پر ادا کی ہوئی نماز بھی کفارۂ سیئات ہوگی۔
یہ مطلب قطعاً نہیں کہ نماز باجماعت اور بے جماعت دونوں برابر ہیں۔
والله أعلم۔
(4)
قبل ازیں صحیح مسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان ہوئی ہے کہ پانچوں نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔
بظاہر یہ حدیث مذکورہ مثال سے متعارض ہے کیونکہ پانچ مرتبہ نہانے سے بالکل میل کچیل نہیں رہے گا، اگر رہے گا تو مقدار میں بہت کم ہو گا، اسی طرح نمازوں کی ادائیگی سے سب گناہ معاف ہوجائیں گے یا چھوٹے چھوٹے گناہ باقی رہ جائیں گے؟ اس تعارض کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں صغیرہ گناہوں کو میل سے تشبیہ دی گئی ہے، خواہ وہ تھوڑے ہوں یا زیادہ، کبیرہ گناہوں زخموں اور اندرونی بیماریوں کی طرح ہوتے ہیں جو صرف توبہ اور انابت الی اللہ سے معاف ہوتے ہیں۔
غسل کرنے سے ظاہری میل کچیل تو دور ہو سکتا ہے، اس سے بیماریوں کا علاج ممکن نہیں۔
اسی طرح نماز پڑھنے سے صغیرہ گناہ تو مٹ سکتے ہیں، کبیرہ معاف نہیں ہوں گے۔
(5)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ﴾ اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو گے تو ہم تمھارے صغیرہ گناہ مٹا دیں گے۔
(النساء: 4: 31)
اس آیت کے پیش نظرمذکورہ حدیث پر ایک اعتراض ہے کہ صغیرہ گناہ تو اجتناب کبائر ہی سے مٹ جاتے ہیں تو نمازیں کس قسم کے گناہوں کا کفارہ ہیں؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نمازوں ہی کے ذریعے سے صغیرہ گناہوں کو مٹاتا ہے کیونکہ نماز نہ پڑھنا بذات خود ایک کبیرہ گناہ ہے، اس لیے نمازیں پڑھے بغیر کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں ہو سکتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 528