صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانوں کے بیان میں
12. بَابُ الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ:
باب: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے (اور کافر سات آنتوں میں)۔
حدیث نمبر: 5395
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ:" كَانَ أَبُو نَهِيكٍ رَجُلًا أَكُولًا، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْكَافِرَ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ"، فَقَالَ: فَأَنَا أُومِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے کہ ابونہیک بڑے کھانے والے تھے۔ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔ ابونہیک نے اس پر عرض کیا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1818  
´مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر سات آنت میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1818]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علماء نے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں:

(1)
مومن اللہ کانام لے کر کھانا شروع کرتا ہے،
اسی لیے کھانے کی مقدار اگر کم ہے تب بھی اسے آسودگی ہوجاتی ہے،
اور کافر چونکہ اللہ کا نام لیے بغیر کھاتا ہے اس لیے اسے آسودگی نہیں ہوتی،
خواہ کھانے کی مقدار زیادہ ہو یا کم۔

(2)
مومن دنیاوی حرص طمع سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے،
اسی لیے کم کھاتا ہے،
جب کہ کافر حصول دنیا کا حریص ہوتا ہے اسی لیے زیادہ کھاتا ہے۔

(3)
مومن آخرت کے خوف سے سر شار رہتا ہے اسی لیے وہ کم کھا کربھی آسودہ ہو جاتا ہے،
جب کہ کافر آخرت سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارتا ہے،
اسی لیے وہ بے نیاز ہوکر کھاتا ہے،
پھر بھی آسودہ نہیں ہوتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1818   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5395  
5395. سیدنا عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ ابو نہیک نامی شخص بسیار خور تھا تو اس سے حضرت ابن عمر عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ یہ سن کر ابو نہیک نے کہا: میں تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5395]
حدیث حاشیہ:
سات آنتوں میں کھانے اور ایک آنت میں کھانے سے جو کچھ اللہ اور رسول کی مراد ہے بغیر کرید کئے میرا اس پر ایمان ہے، اس میں رد ہے ان لوگوں کا بھی جنہوں نے قول اطباء سے صرف چھ آنتوں کا ہونا نقل کیا ہے۔
حالانکہ اطباء کے قول کے آگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ایک مومن مسلمان کے لیے بہت بڑی حقیقت رکھتا ہے۔
پس آمنا بقول رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5395   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5395  
5395. سیدنا عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ ابو نہیک نامی شخص بسیار خور تھا تو اس سے حضرت ابن عمر عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ یہ سن کر ابو نہیک نے کہا: میں تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5395]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابو نہیک مکہ مکرمہ کا رہنے والا تھا۔
اس کے کہنے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ سات آنتوں میں کھانے اور ایک آنت میں کھانے سے جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد ہے کرید کیے بغیر میرا اس پر ایمان ہے۔
(2)
بہرحال کافر کے کھانے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اور جو کافر ہیں وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور حیوانوں کی طرح کھاتے ہیں۔
آخر کار ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
(محمد: 12)
اس لیے ایک مومن کو چاہیے کہ وہ زیادہ کھانے کی عادت چھوڑ دے اور تھوڑے کھانے پر قناعت کرے تاکہ اللہ کی عبادت میں سستی واقع نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5395