صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانوں کے بیان میں
12. بَابُ الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ:
باب: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے (اور کافر سات آنتوں میں)۔
حدیث نمبر: 5397
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَأْكُلُ أَكْلًا كَثِيرًا، فَأَسْلَمَ فَكَانَ يَأْكُلُ أَكْلًا قَلِيلًا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرَ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب بہت زیادہ کھانا کھایا کرتے تھے، پھر وہ اسلام لائے تو کم کھانے لگے۔ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 409  
´مسلمان ایک آنت سے کھاتا ہے`
«. . . 367- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يأكل المسلم فى معى واحد، والكافر فى سبعة أمعاء. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 409]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5396، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ عام طور پر کھانا تھوڑا کھانا چاہئے لیکن بعض اوقات ضرورت کے مطابق پیٹ بھر کر کھانا بھی جائز ہے۔ دیکھئے: الموطأ حدیث: 119
➋ کھانے پینے میں اسراف اور غیر ضروری اخراجات اچھا کام نہیں ہے بلکہ کوشش کرکے کفایت شعاری کو اپنانا چاہئے تاہم ضرورت کے وقت مثلاً مہمان اور دوست وغیرہ کی میزبانی اور جائز خواہش کے مطابق بہترین کھانے تیار کرکے پیش کرنا اور خود کھانا بھی صحیح ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مہمانوں کے لئے بچھڑا ذبح کرکے اس کا گوشت بھون کر پیش کردیا تھا۔
➌ جو چیز نقصان دہ ہو اُس سے بچنا ضروری ہے مثلاً شوگر کے مریض کے لئے چینی سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
➍ کم کھانے سے، اللہ کے فضل وکرم سے صحت اچھی رہتی ہے۔
➎ کافر بہت زیادہ کھاتا اور پیتا ہے۔ دیکھئے: الموطأ حدیث: 445
➋ سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا: آدمی کے پیٹ سے زیادہ بری تھیلی کوئی نہیں جسے بھرا جاتا ہے۔ آدمی کے لئے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں۔ اگر کھانا پینا ضروری ہے تو ایک تہائی کھانے کے لئے، ایک تہائی پینے کے لئے اور ایک تہائی سانس لینے کے لئے چھوڑنا چاہیے۔ [سنن الترمذي: 2380 وقال: هٰذا حديث حسن صحيح أحمد 4/132 ح17318، دوسرا نسخه: 17186، وسنده حسن]
➐ اس حدیث میں ایک بہترین نکتہ یہ بھی ہے کہ دنیا صرف کھانے پینے اور آرام کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ دنیا دارالعمل ہے۔ اہل ایمان کے نزدیک رضائے الٰہی اول اور کھانا پینا ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 367   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3256  
´مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں کھاتا ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3256]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سات آنتوں میں کھانے سےمراد بہت زیادہ کھانا ہے۔

(2)
حرص اور لالچ مومن کی شان کے لائق نہیں۔

(3)
زیادہ پیٹ بھر کر کھانا صحت کے لیے نقصان دہ ہے اس لیے اسی قدر کھانا کھانا چاہیے جو آسانی سے ہضم ہو جائے۔

(4)
مومن اللہ کانام لے کر کھاتا ہے اس لیے اس کے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔
کافر اللہ کانام لے کر نہیں کھاتا اس لیے اس کے کھانے میں برکت نہیں ہوتی اور کھانے میں اس کے ساتھ شیطان شریک ہو جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3256   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5397  
5397. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک آدمی بہت کھانا کھاتا تھا۔ وہ مسلمان ہوا تو بہت کم کھانے لگا۔ اس امر کا ذکر نبی ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: بلاشبہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5397]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی شرح میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر کی تمام تر حرص پیٹ ہوتا ہے اور مومن کا اصل مقصود آخرت ہوا کرتی ہے۔
پس مومن کی شان یہی ہے کہ کھانا کم کھانا ایمان کی عمدہ سے عمدہ خصلت ہے اورزیادہ کھانے کی حرص کفر کی خصلت ہے۔
(حجة اللہ البالغة)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5397   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5397  
5397. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک آدمی بہت کھانا کھاتا تھا۔ وہ مسلمان ہوا تو بہت کم کھانے لگا۔ اس امر کا ذکر نبی ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: بلاشبہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5397]
حدیث حاشیہ:
(1)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سات آنتوں سے مراد سات صفات ہیں جو کافر میں پائی جاتی ہیں۔
وہ طبعی خواہش، شہوت نفس، آنکھ کی شہوت، منہ کی شہوت، کان کی خواہش، ناک کی چاہت اور بھوک کی خواہش ہیں۔
یہ آخری (بھوک کی خواہش)
ضروری ہے جس میں مومن کھاتا ہے اور کافر سب میں کھاتا ہے۔
(عمدة القاري: 405/14) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کھانے کے معاملے میں لوگوں کے تین طبقے ہیں:
٭ جو ہر قسم کا کھانا چٹ کر جاتے ہیں، خواہ انہیں ضرورت ہو یا نہ ہو۔
ایسا کام جہالت پیشہ لوگوں کا ہے۔
٭ ایک گروہ ہے جو بھوک کے وقت کھاتے ہیں اور اتنا کھاتے ہیں جس سے بھوک ختم ہو جائے۔
٭ کچھ لوگ ایسے ہیں جو شہوت نفس کو توڑنے کے لیے بھوکے رہتے ہیں اور صرف جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے کچھ کھا لیتے ہیں۔
غالباً حدیث سے دوسرا طبقہ مراد ہے کیونکہ مومن کی شان یہی ہے اور پہلا طبقہ تو کافروں کا ہے۔
(فتح الباري: 699/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5397