صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانوں کے بیان میں
15. بَابُ الْخَزِيرَةِ:
باب: خزیرہ کا بیان۔
قَالَ النَّضْرُ:" الْخَزِيرَةُ مِنَ النُّخَالَةِ وَالْحَرِيرَةُ مِنَ اللَّبَنِ".
‏‏‏‏ اور نضر بن شمیل نے کہا کہ «خزيرة» بھوسی سے بنتا ہے اور «حريرة» دودھ سے۔
حدیث نمبر: 5401
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيُّ،" أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنْ الْأَنْصَارِ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا كَانَتِ الْأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ لَهُمْ، فَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذُهُ مُصَلًّى، فَقَالَ: سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ لِي: أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟ فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ فَصَفَفْنَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ فَثَابَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ، فَاجْتَمَعُوا، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقُلْ أَلَا تَرَاهُ، قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ، قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: قُلْنَا: فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى الْمُنَافِقِينَ، فَقَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ، مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ الْحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيَّ أَحَدَ بَنِي سَالِمٍ وَكَانَ مِنْ سَرَاتِهِمْ، عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودٍ، فَصَدَّقَهُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے امام لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں محمود بن ربیع انصاری نے خبر دی کہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے اور قبیلہ انصار کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری بصارت کمزور ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں۔ برسات میں وادی جو میرے اور ان کے درمیان حائل ہے۔ بہنے لگتی ہے اور میرے لیے ان کی مسجد میں جانا اور ان میں نماز پڑھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے یا رسول اللہ! میری یہ خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور میرے گھر میں آپ نماز پڑھیں تاکہ میں اسی جگہ کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان شاءاللہ میں جلد ہی ایسا کروں گا۔ عتبان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہو گیا تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ بیٹھے نہیں بلکہ گھر میں داخل ہو گئے اور دریافت فرمایا کہ اپنے گھر میں کس جگہ تم پسند کرتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہو گئے اور (نماز کے لیے) تکبیر کہی۔ ہم نے بھی (آپ کے پیچھے) صف بنا لی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خزیرہ (حریرہ کی ایک قسم) کے لیے جو آپ کے لیے ہم نے بنایا تھا روک لیا۔ گھر میں قبیلہ کے بہت سے لوگ آ آ کر جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے کہا مالک بن دخشن کہاں ہیں؟ اس پر کسی نے کہا کہ وہ تو منافق ہے اللہ اور اس کے رسول سے اسے محبت نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہوں نے اقرار کیا ہے کہ «لا إله إلا الله» یعنی اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ ان صحابی نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا (یا رسول اللہ!) لیکن ہم ان کی توجہ اور ان کا لگاؤ منافقین کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن اللہ نے دوزخ کی آگ کو اس شخص پر حرام کر دیا ہے جس نے کلمہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کر لیا ہو اور اس سے اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہو۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے جو بنی سالم کے ایک فرد اور ان کے سردار تھے۔ محمود کی حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5401  
5401. سیدنا محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عتبان بن مالک ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ صاحب نبی ﷺ کے انصاری صحابہ میں سے ہیں انہوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری نظر کمزور ہو چکی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں موسم برسات میں یہ نالا بہہ پڑتا ہے جو میری لیے ان کی مسجد میں جانا اور انہیں نماز پڑھانا ممکن نہیں رہتا۔ اللہ کے رسول! میری انہتائی خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تو میں اس جگہ کو اپنے لیے جائے نماز قرار دے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں إن شاء اللہ جلد ہی ایسا کروں گا حضرت عتبان ؓ نے کہا کہ ایک دن چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہوا تو رسول اللہ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ نبی ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو بیٹھے بغیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5401]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔
دوزخ حرام ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ طبقہ مومن پر حرام ہے جس میں کافر اور منافق رہیں گے یا دوزخ میں ہمیشہ کے لیے رہنا مسلمان پر حرام ہے۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی معقول شرعی وجہ کے بغیر کافر قرار دینا جائز نہیں ہے۔
اس صورت میں وہ کفر خود کہنے والے کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5401   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5401  
5401. سیدنا محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عتبان بن مالک ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ صاحب نبی ﷺ کے انصاری صحابہ میں سے ہیں انہوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری نظر کمزور ہو چکی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں موسم برسات میں یہ نالا بہہ پڑتا ہے جو میری لیے ان کی مسجد میں جانا اور انہیں نماز پڑھانا ممکن نہیں رہتا۔ اللہ کے رسول! میری انہتائی خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تو میں اس جگہ کو اپنے لیے جائے نماز قرار دے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں إن شاء اللہ جلد ہی ایسا کروں گا حضرت عتبان ؓ نے کہا کہ ایک دن چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہوا تو رسول اللہ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ نبی ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو بیٹھے بغیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5401]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مہمانوں کو خزیرہ پیش کیا جو خصوصی طور پر تیار کیا گیا تھا۔
یہ ایک بہترین، زود ہضم اور لذیذ پکوان ہے۔
گوشت کا باریک قیمہ کر کے دیگ میں ڈال دیا جاتا ہے، پھر اس میں پانی ڈال کر نیچے آگ جلاتے ہیں، جب قیمہ پک جاتا ہے تو اس پر جو کا آٹا ڈالتے ہیں، اس طرح وہ لذت میں بے مثال ہوتا ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کے پکوان مہمانوں کو پیش کیے جا سکتے ہیں، اس میں کسی قسم کی فضول خرچی یا اسراف نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5401