صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانوں کے بیان میں
26. بَابُ شَاةٍ مَسْمُوطَةٍ وَالْكَتِفِ وَالْجَنْبِ:
باب: کھال سمیت بھنی ہوئی بکری اور شانہ اور پسلی کے گوشت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5421
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: كُنَّا نَأْتِي أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَخَبَّازُهُ قَائِمٌ، قَالَ:" كُلُوا فَمَا أَعْلَمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَغِيفًا مُرَقَّقًا حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ وَلَا رَأَى شَاةً سَمِيطًا بِعَيْنِهِ قَطُّ".
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ ہم انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی روٹی پکانے والا ان کے پاس ہی کھڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کھاؤ۔ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پتلی روٹی (چپاتی) دیکھی ہو۔ یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مسلم بھنی ہوئی بکری دیکھی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3309  
´بھنے ہوئے گوشت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھنی ہوئی بکری دیکھی ہو یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3309]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبی اکرم ﷺ کھانے میں تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔
جوسادہ کھانا میسر ہوتا تناول فرما لیتے تھے۔

(2)
بھنا ہوا گوشت کھانا جائز ہے جیسے حدیث: 3311 میں آرہا ہے۔

(3)
شِوَاء سے مراد وہ گوشت ہے جو پتھر وں کو گرم کرکے ان پر رکھا جاتا ہے جس سے وہ بھن کر کھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3309   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5421  
5421. سیدنا قتادہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی روٹی پکانے والا ان کے پاس ہی کھڑا تھا انہوں نے فرمایا: تم کھاؤ مجھے معلوم نہیں کہ نبی ﷺ نے کبھی پتلی چپاتی دیکھی ہو حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے اور نہ آپ نے کبھی سالم بھنی ہوئی بکری ہی دیکھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5421]
حدیث حاشیہ:
(1)
عربوں کے ہاں جو لوگ خوش حال ہوتے وہ بکری کا بچہ لیتے اور اسے ذبح کر کے اندرونی صفائی کے بعد کھال سمیت اسے سخت گرم پانی میں ڈال دیتے۔
جب اس کے بال اتر جاتے تو سالم بچے کو بھون لیتے، پھر مزے سے کھاتے۔
اس کے دو نقصان ہوتے:
ایک تو چھوٹے سے ہی کو ذبح کر لیا جاتا، دوسرے اس کی کھال ضائع ہو جاتی۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس انداز سے بھنی ہوئی بکری کبھی نہیں دیکھی، نہ آپ نے کھانے کا میز، چھوٹی پیالیاں، باریک پسا ہوا آٹا اور چھنا ہوا آٹا استعمال کیا بلکہ جَو کا بغیر چھنا آٹا ہی بطور خوراک استعمال فرمایا کرتے تھے، لیکن بھنا ہوا شانہ تناول کرنا ثابت ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5421