صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ -- کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
12. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ} :
باب: سورۃ المائدہ کی اس آیت کی تفسیر کہ ”حلال کیا گیا ہے تمہارے لیے دریا کا شکار کھانا“۔
حدیث نمبر: 5494
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ:" بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ، وَأَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ نَرْصُدُ عِيرًا لِقُرَيْشٍ فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ، فَسُمِّيَ جَيْشَ الْخَبَطِ، وَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا، يُقَالُ لَهُ: الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا نِصْفَ شَهْرٍ، وَادَّهَنَّا بِوَدَكِهِ حَتَّى صَلَحَتْ أَجْسَامُنَا، قَالَ: فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَنَصَبَهُ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ وَكَانَ فِينَا رَجُلٌ، فَلَمَّا اشْتَدَّ الْجُوعُ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو سوار روانہ کئے۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ہمیں قریش کے تجارتی قافلہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی تھی پھر (کھانا ختم ہو جانے کی وجہ سے) ہم سخت بھوک اور فاقہ کی حالت میں تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہم سلم کے پتے (خبط) کھا کر وقت گزارتے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام جیش الخبط پڑ گیا اور سمندر نے ایک مچھلی باہر ڈال دی۔ جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی تیل کے طور پر اپنے جسم پر ملی جس سے ہمارے جسم تندرست ہو گئے۔ بیان کیا کہ پھر ابو عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی کی ہڈی لے کر کھڑی کی تو ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب (قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما) تھے جب ہم بہت زیادہ بھوکے ہوئے تو انہوں نے یکے بعد دیگر تین اونٹ ذبح کر دیئے۔ بعد میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے منع کر دیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4159  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی معیشت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تین سو آدمیوں کو روانہ کیا، ہم نے اپنے توشے اپنی گردنوں پر لاد رکھے تھے، ہمارا توشہ ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کو ایک کھجور ملتی، کسی نے پوچھا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جواب دیا: جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، ہم سمندر تک آئے، آخر ہمیں ایک مچھلی ملی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4159]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ہر قسم کے حالات سے جہاد کیا خواہ ان کے پاس سواریاں اور راشن وغیرہ بھی نہ ہوتا۔

(2)
مچھلی مری ہوئی بھی حلال ہے۔

(3)
جہاد میں اللہ کی طرف سے غیر متوقع طور پر مدد حاصل ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4159   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2475  
´باب:۔۔۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین سو کی تعداد میں بھیجا، ہم اپنا اپنا زاد سفر اٹھائے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ان سے کہا گیا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، انہوں نے فرمایا: ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی، جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، چنانچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہو کر کھاتے رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2475]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ صحابہ کرام دنیا سے کس قدر بے رغبت تھے،
فقر وتنگدستی کی وجہ سے ان کی زندگی کس طرح پریشانی کے عالم میں گزرتی تھی،
اس کے باوجود بھوک کی حالت میں بھی ان کا جذبہ جہاد بلند ہوتا تھا،
کیوں کہ وہ صبر وضبط سے کام لیتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2475   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3840  
´سمندری جانوروں کے کھانے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ہم پر امیر بنا کر قریش کا ایک قافلہ پکڑنے کے لیے روانہ کیا اور زاد سفر کے لیے ہمارے ساتھ کھجور کا ایک تھیلہ تھا، اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے، ہم لوگ اسے اس طرح چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر پانی پی لیتے، اس طرح وہ کھجور ہمارے لیے ایک دن اور ایک رات کے لیے کافی ہو جاتی، نیز ہم اپنی لاٹھیوں سے درخت کے پتے جھاڑتے پھر اسے پانی میں تر کر کے کھاتے، پھر ہم ساحل سمندر پر چلے توریت کے ٹیلہ جیسی ای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3840]
فوائد ومسائل:

عنبر بہت بری وہیل مچھلیوں کی ایک قسم ہے۔
اس کے ابھرے ہوئے سرسے تیل نکلتا ہے۔
جو مشینری کو چکناتا ہے۔
اور اس کی انتڑیوں سے معروف خوشبو عنبرحاصل ہوتی ہے۔
بہت بڑی مچھلی جب پانی کی شہ زور موجوں کے ذریعے سے ساحل کے کم گہرے حصوں پر آکر پھنس جاتی ہے۔
اور موجوں کی واپسی کے وقت واپس نہیں جا سکتی۔
تو کنارے پر ہی اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
مرنے والے جانداروں کے جسم سے گلنے سڑنے کا عمل انتڑیوں وغیرہ سے شروع ہوتا ہے۔
کہ اس میں فضلات ہوتے ہیں۔
اس بڑی وہیل کی انتڑیوں میں انتہائی خوشبو دار چکنا مادہ عنبر موجود ہوتا ہے۔
جو انتڑیوں سے گلنے سڑنے کے عمل کو شروع نہیں ہونے دیتا۔
اس لئے اس کا گوشت نسبتا زیادہ عرصے کےلئے محفوظ رہتا ہے۔
بحیرہ قلزم کے دونوں طرف عرب اور افریقہ میں گوشت کی دوسری اقسام کے علاوہ مچھلی کو دھوپ میں خشک کرنے کا طریقہ قدیم سے موجود تھا۔
اوراب تک موجود ہے۔
ان علاقوں کی منڈیوں میں آج بھی بڑی مقدار میں خشک مچھلی بکتی ہے۔
جو بالکل خشک لکڑی کی طرح محسوس ہوتی ہے۔
اب آسٹریلیا وغیرہ میں جدید طریقوں کے مطابق بڑی مقدار میں مچھلی کو خشک کرکے ان علاقوں سمیت دنیا بھر میں فروخت کیا جاتا ہے۔


تین سو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ایک مہینے تک اس محفوظ شدہ مقوی غذا کو استعمال کیا۔
اور ساتھ لے آئے جو بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں پیش کی گئی۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا تنگ دستی کے عالم میں جہاد کے اس موقع پر ایسی غذا کی فراہمی اللہ کی طرف سے خصوصی انعام ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اشاعت اسلام میں جس عزیمت کی مثالیں قائم کی ہیں۔
دنیا کی کوئی تحریک اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصرہے۔
اللہ اور اس کے رسولﷺکی محبت ااطاعت امیر اور صبر جانفشانی کے بغیر دین ودنیا کا کوئی کام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔


اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ سمندری جانور مچھلی کے حکم میں ہیں۔
یعنی وہ از خود مرجایئں تب بھی حلال ہیں۔
جیسا کہ گزشتہ حدیث 3815 میں گزرا ہے۔


نیز مبارک چیز سے حصہ لینے کی خواہش کرنا معیوب نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3840   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5494  
5494. سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں روانہ کیا اس لشکر میں تین سو سوار تھے۔ ہمارے امیر ابو عبیدہ بن جراح تھے ہمارا کام قریش کے تجارتی قافلے کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا تھا اس دوران میں ہمیں سخت بھوک لگی نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ہم نے درختوں کے پتے کھائے۔ اس بنا پر اس مہم کا نام ''جیش الخبط'' پڑ گیا تاہم سمندر نے ایک مچھلی باہر پھینکی جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے وہ مچھلی نصف ماہ تک کھائی اور اس کی چربی بطور مالش استعمال کرتے رہے جس سے ہمارے جسم طاقتور ہو گئے۔ پھر یمارے امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی کی ہڈی لی، اسے کھڑا کیا اور ایک سوار اس کے نیچے سے گزرا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے جب ہمیں بھوک نے زیادہ تنگ کيا تو انہوں نے تین اونٹ ذبح کر دیے پھر (بھوک نے تنگ کیا تو اور) تین اونٹ (ذبح کر دیے) اس كے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5494]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ سواریوں کے کم ہونے کا خطرہ تھا اور سفر میں سواریوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5494   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5494  
5494. سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں روانہ کیا اس لشکر میں تین سو سوار تھے۔ ہمارے امیر ابو عبیدہ بن جراح تھے ہمارا کام قریش کے تجارتی قافلے کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا تھا اس دوران میں ہمیں سخت بھوک لگی نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ہم نے درختوں کے پتے کھائے۔ اس بنا پر اس مہم کا نام ''جیش الخبط'' پڑ گیا تاہم سمندر نے ایک مچھلی باہر پھینکی جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے وہ مچھلی نصف ماہ تک کھائی اور اس کی چربی بطور مالش استعمال کرتے رہے جس سے ہمارے جسم طاقتور ہو گئے۔ پھر یمارے امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی کی ہڈی لی، اسے کھڑا کیا اور ایک سوار اس کے نیچے سے گزرا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے جب ہمیں بھوک نے زیادہ تنگ کيا تو انہوں نے تین اونٹ ذبح کر دیے پھر (بھوک نے تنگ کیا تو اور) تین اونٹ (ذبح کر دیے) اس كے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5494]
حدیث حاشیہ:
(1)
جن صاحب نے اونٹ ذبح کیے وہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے صاجزادے حضرت قیس رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اونٹ ذبح کرنے سے اس لیے منع کر دیا کہ سواریوں کے کم ہو جانے کا اندیشہ تھا۔
سفر میں سواریوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ سمندر کا مردار مطلق طور پر حلال ہے، خواہ شکار کرنے کے بعد مرا ہو یا خود بخود مر کر اوپر آ گیا ہو، کیونکہ یہ مچھلی جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پندرہ دن تک استعمال کی وہ سمندر نے پھینکی تھی جو زندہ نہیں تھی، لیکن ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سمندر جو باہر پھینک دے یا پانی پیچھے ہٹ جانے کی صورت میں جو زمین پر رہ جائے اسے کھا لو اور جو اس میں مر کر اوپر تیر آئے تو اسے مت کھاؤ۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3815)
لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے جیسا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے خود ہی اس کی وضاحت کر دی ہے، لہذا از خود مرنے والی مچھلی بھی حلال ہے جیسا کہ عنوان میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا موقف گزر چکا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5494