صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ -- کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
19. بَابُ ذَبِيحَةِ الْمَرْأَةِ وَالأَمَةِ:
باب: (مسلمان) عورت اور لونڈی کا ذبیحہ بھی جائز ہے۔
حدیث نمبر: 5505
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ سَعْدٍ أَوْ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ جَارِيَةً لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ كَانَتْ تَرْعَى غَنَمًا بِسَلْعٍ فَأُصِيبَتْ شَاةٌ مِنْهَا، فَأَدْرَكَتْهَا فَذَبَحَتْهَا بِحَجَرٍ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كُلُوهَا".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے قبیلہ انصار کے ایک آدمی نے کہ معاذ بن سعد یا سعد بن معاذ نے انہیں خبر دی کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ریوڑ میں سے ایک بکری مرنے لگی تو اس نے اسے مرنے سے پہلے پتھر سے ذبح کر دیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھاؤ۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 344  
´ذبح کرنے کے لئے چھری ضروری نہیں ہے`
«. . . 265- مالك عن نافع عن رجل من الأنصار عن معاذ بن سعد أو عن سعد بن معاذ أن جارية لكعب بن مالك كانت ترعى غنما لها بسلع، فأصيبت شاة منها فذكتها بحجر، فسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا بأس بها، فكلوها. . . .»
. . . معاذ بن سعد یا سعد بن معاذ سے روایت ہے کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی سلع (کے مقام) پر بکریاں چرا رہی تھی پھر ان میں سے ایک بکری مصیبت کا شکار (زخمی یا بیمار) ہوئی تو اس نے وہاں پہنچ کر اسے پتھر کے ساتھ ذبح کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، پس تم اسے کھاؤ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 344]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5505، من حديث مالك به رجل من الأنصار صحابي، ذكره ابن مندة وغيره فى الصحابة كما فى إرشاد القاري للقسطلاني 8/279، وقال ابن العجمي: وهو عبدالله بن كعب بن مالك التوضيح لمبهمات الجامع الصحيح، مخطوط مصور ص322، والحمدلله]
تفقه:
➊ عورت اگر اللہ کا نام لے حلال جانور یا پرندہ وغیرہ ذبح کرے تو اس کا ذبیحہ حلال ہے، جمہور کا یہ مسلک ہے۔ دیکھئے [التمهيد 128/16]
➋ ذبح کے لئے چھری کا ہونا ضروری نہیں بلکہ جس چیز سے بھی خون بہہ جائے تو وہ ذبیحہ حلال ہے۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما أنهر الدّم وذكر اسم الله فكلوه ما لم يكن سنّ ولا ظفر۔» جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام لیا جائے تو اسے کھالو بشرطیکہ دانت یا ناخن نہ ہو۔ [صحيح بخاري: 5543]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر بسم اللہ پڑھ کر بندوق وغیرہ سے فائر کیا جائے تو شکار حلال ہے بشرطیکہ شکار کا خون بہہ چکا ہو۔
➌ اگر کسی کے پاس کوئی امانت ہو تو مصلیحت کی وجہ اور مالک کی عام اجازت سے لیکن ضرورت کے وقت خاص اجازت کے بغیر بھی اس میں تصرف کرسکتا ہے۔
➍ اگر کسی کے پاس کوئی امانت ہو اور وہ اس کی کوتاہی کے بغیر خود بخود ضائع ہوجائے تو اس کا اُس پر کوئی ہرجانہ نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 265   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5505  
5505. سیدنا معاذ بن سعد یاسعد بن معاذ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ سیدنا کعب بن مالک ؓ کی ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ریوڑ میں سے ایک بکری مرنے کے قریب ہوئی تو اس نے (مرنے سے پہلے) اسے پتھر سے ذبح کر دیا، پھر نبی ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5505]
حدیث حاشیہ:
باب اور احادیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5505   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5505  
5505. سیدنا معاذ بن سعد یاسعد بن معاذ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ سیدنا کعب بن مالک ؓ کی ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ریوڑ میں سے ایک بکری مرنے کے قریب ہوئی تو اس نے (مرنے سے پہلے) اسے پتھر سے ذبح کر دیا، پھر نبی ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5505]
حدیث حاشیہ:
جب عورت اچھی طرح ذبح کر سکتی ہو تو اس کا ذبیحہ جائز ہے، اسی طرح اگر بچہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو تو اس کا ذبیحہ بھی صحیح ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ کسی عورت نے مالک کی اجازت کے بغیر ایک بکری ذبح کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں تو اسے نہیں کھاؤں گا، البتہ اس کا گوشت قیدیوں کو کھلا دیا جائے۔
(مسند أحمد: 294/5)
اگر عورت کا ذبیحہ جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کو کھلانے کا حکم کیوں دیتے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت، خواہ آزاد ہو یا لونڈی، بڑی ہو یا چھوٹی، مسلمان ہو یا اہل کتاب، پاک ہو یا ناپاک ہر حالت میں اس کا ذبیحہ جائز ہے۔
بعض اہل علم کے ہاں عورت کا ذبیحہ مکروہ ہے۔
لیکن مکروہ ہونے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔
(فتح الباري: 783/9)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5505