صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
13. بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ:
باب: نماز عصر کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 546
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الْعَصْرِ وَالشَّمْسُ طَالِعَةٌ فِي حُجْرَتِي لَمْ يَظْهَرِ الْفَيْءُ بَعْدُ"، وَقَالَ مَالِكٌ: وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَشُعَيْبٌ، وَابْنُ أَبِي حَفْصَةَ، وَالشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ.
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج ابھی میرے حجرے میں جھانکتا رہتا تھا۔ ابھی سایہ نہ پھیلا ہوتا تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ امام مالک اور یحییٰ بن سعید، شعیب رحمہم اللہ اور ابن ابی حفصہ کے روایتوں میں (زہری سے) «والشمس قبل أن تظهر‏» کے الفاظ ہیں، (جن کا مطلب یہ ہے کہ دھوپ ابھی اوپر نہ چڑھی ہوتی)۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 506  
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھی، اور دھوپ ان کے حجرے میں تھی، اور سایہ ان کے حجرے سے (دیوار پر) نہیں چڑھا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 506]
506 ۔ اردو حاشیہ: حدیث کا مقصد عصر کی نماز جلدی پڑھنا ہے، یعنی مثل اول ہوتے ہیں پڑھ لیتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سے مراد ان کے گھر کا صحن ہے جو دیوار سے گھرا ہوا تھا۔ دوپہر کو پورے صحن میں دھوپ ہوتی تھی اور جیسے جیسے سورج ڈھلتا جاتا تھا، مغربی دیوار کا سایہ صحن میں پھیلتا جاتا تھا، لیکن دیوار چونکہ بہت زیادہ اونچی نہ تھی، اس لیے ابھی صحن میں دھوپ باقی رہتی تھی، مشرقی دیوار پر سایہ چڑھ نہ پاتا تھا کہ وہ مغربی دیوار کے ایک مثل ہو جاتا تھا اور اس وقت نماز قائم کر دی جاتی تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 506   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 407  
´عصر کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں ادا فرماتے تھے کہ دھوپ میرے حجرے میں ہوتی، ابھی دیواروں پر چڑھی نہ ہوتی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 407]
407۔ اردو حاشیہ:
حجرہ عربی زبان میں گھر کے ساتھ گھرے ہوئے آنگن کو بھی کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحن کی دیواریں چھوٹی ہی تھیں اس لیے دھوپ ابھی آنگن ہی میں ہوتی تھی۔ مشرقی دیوارپر چڑھتی نہ تھی کہ عصر کا وقت ہو جاتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ لیتے تھے۔ معلوم ہوا کہ آپ اوّل وقت میں عصر پڑھتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 407   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث683  
´نماز عصر کا وقت۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور دھوپ میرے کمرے میں باقی رہی، ابھی تک سایہ دیواروں پر چڑھا نہیں تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 683]
اردو حاشہ:
اس سے معلوم ہو کہ نبی ﷺ نے عصر کی نماز جلدی ادا فرمائی کیونکہ اگر دیر کی جائے تو سایہ پورے صحن میں پھیل جائے گا اور دیوار پر چڑھنا شروع ہو جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 683   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:546  
546. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز سے فارغ ہو جاتے جبکہ دھوپ میرے حجرے (کے صحن) میں نمایاں ہوتی تھی اور سایہ مکمل طور پر نہ آیا ہوتا تھا۔ امام مالک، یحییٰ بن سعید، شعیب اور ابن ابی حفصہ نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ دھوپ کے اوپر چڑھنے سے پہلے پہلے (نماز پڑھ لیتے تھے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:546]
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ جس میں رسول اللہ ﷺ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ دفن ہیں، مسجد نبوی کے مشرقی جانب واقع تھا جبکہ قبلہ جنوب کی جانب تھا اور اس طرف حضرت حفصہ ؓ اور حضرت میمونہ ؓ کے حجرات تھے۔
مغرب کی طرف کوئی حجرہ نہیں تھا۔
مشرقی جانب جنوبی گوشے میں حضرت سودہ، اس کے آگے شمال کی طرف حضرت عائشہ، پھر حضرت فاطمہ اور آخر میں حضرت صفیہ ؓ کا حجرہ تھا۔
جبکہ شمالی جانب حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ، ان کی وفات کے بعد وہی حجرہ حضرت ام سلمہ ؓ کی تحویل میں آگیا۔
مشرقی جانب ام حبیبہ ؓ، حضرت جویریہ اور حضرت زینب بنت حجش ؓ کے حجرات تھے۔
حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کی اونچائی زیادہ سے زیادہ آٹھ فٹ تھی، کیونکہ حضرت حسن بصری ؒ کا بیان ہے کہ وہ ہاتھ اٹھاتے تو چھت سے لگ جاتا تھا۔
(طبقات ابن سعد: 117/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 546