صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
14. بَابُ إِثْمِ مَنْ فَاتَتْهُ الْعَصْرُ:
باب: اس بیان میں کہ نماز عصر چھوٹ جانے پر کتنا گناہ ہے؟
حدیث نمبر: 552
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الَّذِي تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: يَتِرَكُمْ وَتَرْتُ الرَّجُلَ إِذَا قَتَلْتَ لَهُ قَتِيلًا أَوْ أَخَذْتَ لَهُ مَالًا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے نافع کے ذریعہ سے خبر پہنچائی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سورۃ محمد میں جو «يترکم» کا لفظ آیا ہے وہ «وتر» سے نکالا گیا ہے۔ «وتر» کہتے ہیں کسی شخص کا کوئی آدمی مار ڈالنا یا اس کا مال چھین لینا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 107  
´جس کی نماز عصر رہ گئی؟`
«. . . مالك عن نافع عن عبد الله بن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الذي تفوته صلاة العصر كانما وتر اهله وماله . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو گئی تو گویا اس کا مال اور گھر والے سب کچھ اس سے چھن گیا اور وہ دیکھتا رہ گیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 107]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 552، و مسلم 626، من حديث مالك به]
تفقہ:
① تمام نمازوں کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن بعض نمازوں مثلاً نماز عصر کے سلسلے میں سخت تاکید آئی ہے۔
② تارک نماز ایسا بدنصیب، مفلس و کنگلا ہے جس کا مال و متاع اور گھر بار سب تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور اسے شعور تک نہیں۔
③ تمام نمازیں اول وقت میں اور باجماعت پڑھنی چاہیئں اور عصر کی نماز اول وقت میں اور باجماعت پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
④ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل پر داخل ہو جاتا ہے۔ ديكهئے: [سنن الترمذي 149، وقال: حديث حسن و صححه ابن خزيمه: 353 و ابن حبان 279 و ابن الجارود: 149، والحاكم 193/1 وغيرهم]
لہٰذا فوت ہونے سے بچنے کے لئے اول وقت پر ہی عصر پڑھ لینی چاہئے۔ نماز اول وقت پڑھنا بہترین عمل ہے۔
⑤ سیدنا ابن حدیدہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نماز عصر کے لئے جا رہا تھا، زوراء کے مقام پر مجھے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ملے اور پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا: نماز کے لئے۔ انہوں نے فرمایا: تم نے بہت دیر کر دی، جلدی کرو۔ ابن حدیدہ نے کہا: میں نے جا کر مسجد میں نماز پڑھی پھر واپس آیا تو دیکھا کہ میری لونڈی جو پانی لینے گئی ہوئی تھی، اس نے تاخیر کر دی، میں اس کی طرف رومہ کنویں پر گیا، پھر جب واپس آیا تو سورج اچھا یعنی بلند تھا۔ [الاستذكار 66/1 ح 20 وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عصر کی نماز اول وقت پڑھنے کے قائل و فاعل تھے۔
مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے: [ماهنامه الحديث: 25 ص 65 اور هدية المسلمين: 7]
⑦ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ پر اتنی غشی آئی کہ آپ ہوش میں نہ رہے پھر آپ نے نماز کی قضا ادا نہ کی۔ [الموطا 13/1 ح 23 وسنده صحيح]
امام مالک نے فرمایا: ہمارا خیال ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو گیا تھا اس وجہ سے آپ نے قضا ادا نہیں کی اور اگر وقت کے دوران میں افاقہ ہو جاتا تو آپ نماز پڑھتے۔ [الموطأ ايضاً ترقيم الاستذكار: 23]
راجح یہی ہے کہ ایس حالت میں نماز کی قضا ادا کر لینی چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 195   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 513  
´عصر تاخیر سے پڑھنے کی وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر فوت گئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 513]
513 ۔ اردو حاشیہ: فوائد کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 479۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 513   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 414  
´عصر کے وقت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر چھوٹ گئی گویا اس کے اہل و عیال تباہ ہو گئے اور اس کے مال و اسباب لٹ گئے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: عبیداللہ بن عمر نے «وتر» (واؤ کے ساتھ) کے بجائے «أتر» (ہمزہ کے ساتھ) کہا ہے (دونوں کے معنی ہیں: لوٹ لیے گئے)۔ اس حدیث میں «وتر» اور «أتر» کا اختلاف ایوب کے تلامذہ میں ہوا ہے۔ اور زہری نے سالم سے، سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور عبداللہ بن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے «وتر» فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 414]
414۔ اردو حاشیہ:
➊ لفظ «وُتِرَ» کا ماخذ وتر (واؤ کی زبر کے ساتھ) ہو تو معنی ہیں نقص اور اس کا مابعد منصوب یا مرفوع دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور اگر وتر (واؤ کی زیر کے ساتھ) سمجھا جائے تو جرم اور تعدی کے معنی میں بھی آتا ہے۔ [النهايه ابن اثير]
امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے وتر کے معنی ہیں، کم کر دیا گیا یا چھین لیا گیا، پس وہ شخص بغیر اہل اور مال کے تنہا رہ گیا، اس لیے ایک مسلمان کو نماز عصر کو فوت کرنے سے اسی طرح بچنا چاہیے جیسے وہ گھر والوں سے اور مال کے فوت ہونے سے ڈرتا ہے۔
➋ امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو «باب ماجاء فى السهو عن وقت صلاة العصر» کے ذیل میں درج فرمایا ہے۔ اس سے ان کی مرا د یہ ہے کہ انسان عصر کی نماز میں بھول کر بھی تاخیر کرے تو بےحد و شمار گھاٹے اور خسارے میں ہے، کجا یہ کہ عمداً تغافل کا شکار ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 414   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث685  
´نماز عصر کی محافظت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی نماز عصر فوت ہو جائے، گویا اس کے اہل و عیال اور مال و اسباب سب لٹ گئے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 685]
اردو حاشہ:
ایک دنیا دار کی نظر میں اس سے بڑا کوئی نقصان نہیں ہوسکتا کہ اس کے بیوی بچے اور رشتہ دار سب ایک ہی بار ہلاک ہوجائیں اس کے مویشی مرجائیں مکان اور عمارتیں زمین بوس ہوجائیں روپیہ پیسہ لوٹ لیا جائے اس کا گھر رہے نہ در اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوجائے لیکن نبی کریمﷺ کی نظر میں اتنا بڑا نقصان اس نقصان کا مقابلہ نہیں کرسکتا جو ایک نماز کے چھوڑنے سے ہوتا ہے۔
جس نے نفس امّارہ کی بات مان کر اور شیطان کے بہکاوے میں آ کرعصر کی صرف ایک نماز چھوڑدی اس کا نقصان اسی طرح ناقابل تلافی ہے۔ 2۔
عصر کی نماز کی اہمیت دوسری نمازوں سے زیادہ ہے اس لیے قرآن مجید نے اس نماز کا خاص طور پر ذکر کیا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وقت کاروباری مصروفیات کا ہوتا ہےاور انسان تھوڑے سے دنیادی فائدے کے لیےاللہ کو بھول جاتا ہے لیکن دنیا کا بڑے سے بڑا منافع اس نقصان کا بدل نہیں ہوسکتا کیونکہ فائدہ تو دنیا کا ہے اور نقصان آخرت کا۔
اور دنیا کے تمام خزانے اور تمام نعمتیں اللہ کی نظر میں مچھر کے پر جتنی بھی وقعت نہیں رکھتیں، ارشاد نبوی ہے:
اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔
 (جامع الترمذي، الزهد، باب ماجاء في هوان الدنيا علي الله عزوجل، حديث: 2320)

(3)
نماز فوت ہونے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نماز وقت پر ادا نہیں ہوئی، اگرچہ بعد میں پڑھ لی۔
اس صورت میں اس کے نقصان کی مثال وہ ہے جو بیان ہوئی۔
جس نے بالکل چھوڑدی اس کا نقصان تو اس سے زیادہ ہے۔

(4)
روایت کے آخری کلمات کے یہ معنی بھی کیے گئے ہیں۔
گویا وہ شخص اہل وعیال اور مال ودولت سمیت تباہ وبرباد ہوگیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 685   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:552  
552. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص سے نماز عصر فوت ہو گئی، گویا اس کا سب گھر بار اور مال اسباب لٹ گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:552]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر کا فوت ہونا گناہ کا باعث ہے، لیکن ایک غیر اختیاری فعل ہے اور غیراختیاری کام کے سرزد ہونے پر گناہ کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔
جواب یہ ہے کہ فوات اگرچہ غیر اختیاری طور پر ہوا لیکن جن اسباب کی وجہ سے کوتاہی ہوئی وہ تواختیاری تھے۔
بالعموم نماز کا فوت ہونا کاروباری مصروفیات اور اہل وعیال میں مشغولیت کی وجہ سے ہوتا ہے، حدیث میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ غیر اختیاری ہونے کے باوجود یہ معاملہ معمولی نہیں کہ اس کے متعلق کوتاہی کی جائے، نماز عصر کیا فوت ہوئی کہ اس کا سب کچھ لٹ گیا۔
نماز عصر کو خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک توقرآن میں اس کی اہمیت وخصوصیت واضح طور پر بیان ہوئی ہے، پھر پہلی امتوں نے بھی نماز عصر میں کوتاہی کی تھی، اس لیے ہمیں خبردار کیا گیا کہ اس کی ادائیگی کے متعلق خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نماز عصر تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کی گئی تھی لیکن انھوں نے تن آسانی کی وجہ سے اس کا حق ادا نہ کیا، اس لیے تم میں سے جو انسان اس کی ادائیگی کا غیر معمولی اہتمام کرے گا، اسے اللہ کے ہاں دگنا اجر دیا جائے گا۔
(مسند أحمد: 397/6)
امام ترمذی ؒ نے مذکورہ حدیث کے مضمون کو سہوونسیان پر محمول کیا ہے، چنانچہ انھوں نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
نماز عصر سے سہو ہو جانے کا بیان۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جب آخرت میں نماز عصر کے اہتمام پر اجرو ثواب دیا جائے گا تو اس کے متعلق سہوونسیان کاشکار ہونے والا انسان اس قدر افسوس کرے گا، گویا اس کے اہل و عیال اور مال و اسباب تباہ ہوگئے ہوں۔
(فتح الباري: 42/2)
گویا امام بخاری ؒ نے اخروی حسرت و نقصان کو گناہ سے تعبیر کیا ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 552