صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
16. بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الْعَصْرِ:
باب: نماز عصر کی فضیلت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 555
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 555  
´نماز عصر کی فضیلت`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17]

تشریح:
فرشتوں کا یہ جواب ان ہی نیک بندوں کے لیے ہو گا جو نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے اور جن لوگوں نے نماز کو پابندی کے ساتھ ادا ہی نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں فرشتے ان کے بارے میں کیا کہہ سکیں گے۔ کہتے ہیں کہ ان فرشتوں سے مراد کراماً کاتبین ہی ہیں۔ جو آدمی کی محافظت کرتے ہیں، صبح و شام ان کی بدلی ہوتی رہتی ہے۔ قرطبی نے کہا یہ دو فرشتے ہیں اور پروردگار جو سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کا ان سے پوچھنا ان کے قائل کرنے کے لیے ہے جو انھوں نے آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کہا تھا کہ آدم زاد زمین میں خون اور فساد کریں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 555   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 98  
´باجماعت نماز کی فضیلت`
«. . . 331- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي فيقولون تركناهم وهم يصلون وآتيناهم وهم يصلون. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان رات اور دن کو فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں، پھر جنہوں نے تمہارے درمیان رات گزاری (ہوتی ہے صبح کو) اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے (اللہ تعالیٰ) پوچھتا ہے اور وہ ان سے زیادہ جانتا ہے! میرے بندوں کو تم کس حال پر چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم انہیں اس حالت میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 98]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 555، ومسلم 632، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہ واجماعِ تابعین سے ثابت ہے۔
➋ فرشتوں کا آسمان پر جانا اور آنا روشنی کی رفتار کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ ایسی رفتار سے آتے جاتے ہیں جو روشنی کی رفتار سے بے حد زیادہ ہے۔ ہم اس کی کیفیت سے بے خبر ہیں۔
➌ اہل ایمان کے دل ودماغ میں ہر وقت نماز کا خیال رہتا ہے۔
➍ باجماعت نماز میں فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں۔
➎ غیب پر ایمان لانا ضروری ہے بشرطیکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔
➏ فجر اور عصر کی نمازیں بہت زیادہ فضیلت واہمیت کی حامل ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 331   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:555  
555. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کچھ فرشتے رات کو اور کچھ دن کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے حاضر ہوتے ہیں اور یہ تمام فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں، پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس حاضر ہوتے ہیں، جب وہ آسمان پر جاتے ہیں تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے۔ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا ہے۔ اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے، تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:555]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں نماز عصر کی خصوصی فضیلت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کا اجتماع فجر اور عصر کی نماز میں ہوتا ہے۔
مگر فرق یہ ہے کہ فجر کی نماز میں جو فرشتے آتے ہیں وہ دن کے فرشتے ہیں اور ان کی آمد اپنے مقررہ اوقات میں ہوتی ہے، کیونکہ دن صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے اور عصر کے وقت جو فرشتے آتے ہیں ان کی ڈیوٹی رات کی ہے انھیں نماز میں مغرب شریک ہونا ہوتا ہے، کیونکہ رات غروب آفتاب کے بعد شروع ہوتی ہے، لیکن یہ فرشتے مقررہ اوقات پر آنے کے بجائے قبل از وقت حاضر ہوجاتے ہیں، معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے آنے میں نماز عصر کی فضیلت کا دخل ہے۔
وهوالمقصود. پھر اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں پر کرم و احسان ہے کہ فرشتوں کے اجتماع اور تبدیلی کے لیے جو وقت رکھا ہے اس وقت اہل ایمان نمازوں میں مصروف ہوتے ہیں تاکہ ان کے متعلق خیر و برکت اور بھلائی کی گواہی دیں۔
(شرح الکرماني: 200/2) (2)
اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اس کے باوجود فرشتوں سے سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں پایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتوں سے اعتراف کروانا مقصود ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ان کا اعتراض درست نہ تھا کہ تو زمین میں ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہے جو وہاں پر فساد اور خون خرابہ کرے گی۔
اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بتانا چاہتا ہے کہ ان کا موقف درست نہیں تھا، نیز جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرشتوں سے سوال کرتا ہے، وہ وہی ہیں جن کے متعلق ارشاد ہے:
﴿ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ﴾ اے شیطان! میرے بندوں پر تو غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا۔
(الحجر15: 42)
اس کے علاوہ فرشتے بھی اہل ایمان کی بابت بہت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں، کیونکہ جب ان سے سوال ہوا کہ جب تم ان سے جدا ہوئے تو وہ کس حالت میں تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو نماز پڑھ رہے تھے اور جب وہاں سے واپس آئے تو بھی نماز ہی میں مشغول تھے، یعنی وہ ہر آن اہل ایمان کی عظمت و فضیلت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جن سے ان کی مغفرت ہو۔
واضح رہے کہ یہ وہی فرشتے ہیں جن کی ڈیوٹی ہی مومنین کے لیے استغفار کرنا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ وہ فرشتے اہل ایمان کےلیے استغفارکرتے رہتے ہیں۔
(المومن 40: 7)
بہرحال اللہ تعالیٰ کے معزز فرشتے اہل ایمان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی بابت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔
(شرح الکرماني: 200/2) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ان فرشتوں سے سوال کرتا ہے جن کی ڈیوٹی صرف رات کی تھی۔
ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دن کے وقت ڈیوٹی دینے والوں سے بھی سوال کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
فجر اور عصر کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے اکٹھے ہوجاتے ہیں، چنانچہ جب نماز فجر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے ڈیوٹی دیتے ہیں اور جب نماز عصر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو دن کے فرشتے اوپر چلے جاتے ہیں اور رات کو ڈیوٹی دینے والے موجود رہتے ہیں۔
ان سب سے اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا؟ (صحیح ابن خزیمة: 165/1، حدیث: 322)
اس تفصیلی روایت سے معلوم ہوا کہ دن اور رات دونوں قسم کے فرشتوں سے سوال کیا ہوتا ہے اور وہ اہل ایمان کےلیے نماز میں مصروف رہنے کی گواہی دیتے ہیں۔
(فتح الباري: 49/2)
علامہ کرمانی فرماتے ہیں کہ رات کا وقت نیند اور آرام کا ہوتا ہے اور زیادہ تر گناہ بھی اسی وقت ہوتے ہیں، تو جو لوگ رات کے وقت نہ صرف گناہ سے کنارہ کش رہتے ہیں بلکہ عبادت میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں، وہ دن کے اوقات میں بالاولیٰ گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے عبادت میں مشغول رہیں گے۔
(شرح الکرماني: 200/2)
(4)
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ نماز ایک اعلیٰ ترین عبادت ہے کیونکہ اس کے متعلق سوال و جواب کا ذکر ہے، خاص طور پر نماز فجر اور نماز عصر تو گرانقدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہیں، کیونکہ ان دونوں کے اوقات میں فرشتوں کے دو گروہ اکٹھے ہوتے ہیں جبکہ دوسری نمازوں میں صرف ایک گروہ ہوتا ہے۔
ان دونوں نمازوں کے اوقات بھی انتہا کی فضیلت رکھتے ہیں، چنانچہ صبح کے وقت رزق تقسیم ہوتا ہے اور شام کے وقت اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور انھیں اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔
جو شخص ان اوقات میں اللہ کی عبادت کرے گا اللہ اس کے رزق اور عمل میں برکت فرمائے گا۔
(فتح الباري: 50/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 555