صحيح البخاري
كتاب المرضى -- کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
7. بَابُ فَضْلِ مَنْ ذَهَبَ بَصَرُهُ:
باب: اس کا ثواب جس کی بینائی جاتی رہے۔
حدیث نمبر: 5653
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ الْهَادِ، عَنْ عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ:" إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِي بِحَبِيبَتَيْهِ فَصَبَرَ، عَوَّضْتُهُ مِنْهُمَا الْجَنَّةَ"، يُرِيدُ عَيْنَيْهِ، تَابَعَهُ أَشْعَثُ بْنُ جَابِرٍ، وَأَبُو ظِلَالِ بْنُ هِلَالٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بیان کیا، ان سے مطلب بن عبداللہ بن جذب کے غلام عمرو نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کو اس کے دو محبوب اعضاء (آنکھوں) کے بارے میں آزماتا ہوں (یعنی نابینا کر دیتا ہوں) اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اسے جنت دیتا ہوں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2400  
´نابینا کی فضیلت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے کی پیاری آنکھیں چھین لیتا ہوں تو میرے پاس اس کا بدلہ صرف جنت ہی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2400]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
انسان کوجونعمتیں رب العالمین کی جانب سے حاصل ہیں،
ان میں آنکھ ایک بڑی عظیم نعمت ہے،
یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جب کسی بندے سے یہ نعمت چھین لیتا ہے اوربندہ اس پر صبرورضا سے کام لیتا ہے تواسے قیامت کے دن اس نعمت کے بدل میں جس چیزسے نوازا جائے گا وہ جنت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2400   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5653  
5653. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب میں اپنے بندے کی دو محبوب چیزوں سے آزمائش کرتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے تو اس کے عوض میں اسے جنت عطا کرتا ہوں۔ دو محبوب چیزوں سے مراد اس کی دو آنکھیں ہیں اشعت بن جابر اور ابو ظلال بن ہلال نے حضرت انس ؓ سے روایت کرنے میں عمرو کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5653]
حدیث حاشیہ:
(1)
آنکھیں انسان کے محبوب اعضاء میں سے ہیں۔
ان کی قدر و قیمت ان حضرات سے معلوم کی جا سکتی ہے جو ان سے محروم ہیں۔
ان کے نہ ہونے پر صبر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے اور کسی سے آنکھوں کے نہ ہونے کا شکوہ نہ کرے اور نہ بے چینی اور بے قراری ہی کا اظہار کرے، چنانچہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ صبر کرنے کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی بھی نیت رکھے۔
(جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2401) (2)
اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کا امتحان لیتا ہے تو اس کی وجہ ناراضی نہیں بلکہ اس کے ذریعے سے کسی دوسری مصیبت کو ٹالتا ہے یا اس کے گناہوں کا کفارہ اور بلندئ درجات کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
اگر اس قسم کی مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے تو اس کی مراد پوری ہو سکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5653