صحيح البخاري
كتاب المرضى -- کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
9. بَابُ عِيَادَةِ الصِّبْيَانِ:
باب: بچوں کی عیادت بھی جائز ہے۔
حدیث نمبر: 5655
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا" أَنَّ ابْنَةً لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِ، وَهُوَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَعْدٌ، وَأُبَيٌّ، نَحْسِبُ أَنَّ ابْنَتِي قَدْ حُضِرَتْ فَاشْهَدْنَا فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا السَّلَامَ، وَيَقُولُ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ مُسَمًّى، فَلْتَحْتَسِبْ وَلْتَصْبِرْ فَأَرْسَلَتْ تُقْسِمُ عَلَيْهِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقُمْنَا فَرُفِعَ الصَّبِيُّ فِي حَجْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ، فَفَاضَتْ عَيْنَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: هَذِهِ رَحْمَةٌ وَضَعَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادِهِ، وَلَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ إِلَّا الرُّحَمَاءَ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عاصم نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوعثمان سے سنا اور انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو کہلوا بھیجا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سعد رضی اللہ عنہ اور ہمارا خیال ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے کہ میری بچی بستر مرگ پر پڑی ہے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جو چاہے دے اور جو چاہے لے لے ہر چیز اس کے یہاں متعین و معلوم ہے۔ اس لیے اللہ سے اس مصیبت پر اجر کی امیدوار رہو اور صبر کرو۔ صاحبزادی نے پھر دوبارہ قسم دے کر ایک آدمی بلانے کو بھیجا۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے پھر بچی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں اٹھا کر رکھی گئی اور وہ جانکنی کے عالم میں پریشان تھی۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو خود بھی رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5655  
5655. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا، اس وقت نبی ﷺ کے ہمراہ وہ حضرت سعد اور حضرت ابی بن کعب ؓ تھے۔ پیغام تھا کہ میری لخت جگر بستر مرگ پر پڑی ہے، اس لیے آپ تشریف لائیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام بھیجا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی کو اختیار ہے جو چاہے دے اور جو چاہے لے لے۔ اس کے نزدیک ہر چیز ایک مقرر مدت تک کے لیے ہے، اس لیے اللہ تعالٰی سے اس مصیبت پر اجر کی امید رکھو اور صبر کرو۔ صاحبزادی نے پھر آپ ﷺ کو قسم دے کر پیغام بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھے پھر بچی کو نبی ﷺ کو گود میں رکھ دیا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑ رہا تھا اور وہ بے قرار تھی، (یہ منظر دیکھ کر) نبی ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس پر حضرت سعد ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5655]
حدیث حاشیہ:
حدیث كى اس باب میں مطابقت ظاہر ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بچی کی عیادت کو تشریف لے گئے جو جانکنی کے عالم میں تھی جسے دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور ان کو آپ نے رحم سے تعبیر فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5655   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5655  
5655. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا، اس وقت نبی ﷺ کے ہمراہ وہ حضرت سعد اور حضرت ابی بن کعب ؓ تھے۔ پیغام تھا کہ میری لخت جگر بستر مرگ پر پڑی ہے، اس لیے آپ تشریف لائیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام بھیجا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی کو اختیار ہے جو چاہے دے اور جو چاہے لے لے۔ اس کے نزدیک ہر چیز ایک مقرر مدت تک کے لیے ہے، اس لیے اللہ تعالٰی سے اس مصیبت پر اجر کی امید رکھو اور صبر کرو۔ صاحبزادی نے پھر آپ ﷺ کو قسم دے کر پیغام بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھے پھر بچی کو نبی ﷺ کو گود میں رکھ دیا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑ رہا تھا اور وہ بے قرار تھی، (یہ منظر دیکھ کر) نبی ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس پر حضرت سعد ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5655]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے جو اس وقت حالت نزع میں تھی، جسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ ایسے حالات میں صبر کرنا چاہیے، رونے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب آپ نے دیا:
یہ اللہ کی رحمت ہے جو صبر کے منافی نہیں۔
یہ جذبہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔
(2)
اللہ تعالیٰ کے ہاں سو رحمتیں ہیں۔
ان میں سے ایک رحمت اللہ تعالیٰ نے جِنوں، انسانوں، جانوروں اور حشرات میں رکھی ہے جس کے باعث وہ ایک دوسرے سے شفقت کرتے ہیں حتی کہ وحشی جانور بھی اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔
باقی ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر قیامت کے دن نازل فرمائے گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5655