صحيح البخاري
كتاب المرضى -- کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
10. بَابُ عِيَادَةِ الأَعْرَابِ:
باب: گاؤں میں رہنے والوں کی عیادت کے لیے جانا۔
حدیث نمبر: 5656
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، فَقَالَ لَهُ: لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: قُلْتَ طَهُورٌ، كَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَنَعَمْ إِذًا".
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو مریض سے فرماتے «لا بأس طهور إن شاء الله» کوئی فکر کی بات نہیں۔ ان شاءاللہ یہ مرض گناہوں سے پاک کرنے والا ہے لیکن اس دیہاتی نے آپ کے ان مبارک کلمات کے جواب میں کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ پاک کرنے والا ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ بخار ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کے رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایسا ہی ہو گا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3616  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، قَالَ:" لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ: لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: قُلْتُ: طَهُورٌ كَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَعَمْ إِذًا . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3616]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:»
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں علامات نبوت پر اشارہ فرمایا اور نبوت کے دلائل پر روشنی ڈالی، مگر حدیث جو پیش فرمائی اس میں بظاہر کوئی بھی ایسی نبوت کی خاص نشانی نظر نہیں آتی جس حدیث کا ترجمتہ الباب سے تعلق بنتا ہو، ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه دخوله فى هذا الباب: اٴن فى بعض طرقة زيادة تقتضي ايراده فى علامات النبوة، وهى قوله صلى الله عليه وسلم اما اذا أبيت فهي كما تقول، قضاء (الله) كائن فما أمسي من الغد ألا ميتا وبهذه الزيادة يظهر دخول هذا الحديث فى هذا الباب .» [فتح الباري لابن حجر: 521/7]
یعنی ترجمۃ الباب کی حدیث سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس کے بعد طرق میں علامات نبوت کی نشانی ہے۔ (اس کا بعض طرق) جیسے طبرانی نے روایت کیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، جس کے آخری الفاظ یوں ہیں، «فما أمسي من الغد الا ميتا» پس وہ دوسرے روز مر گیا۔ لہٰذا ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، لہٰذا یہی سے ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«مطابقة للترجمة تؤخذ من قوله: فنعم اذا فذالك من حيث ان الاعرابي لما رد على النبى صلى الله عليه وسلم قوله: لا بأس طهور ان شاءالله مات على وفق ما قاله صلى الله عليه وسلم، وهذا معجزاته صلى الله عليه وسلم .» [عمدة القاري للعيني: 149/16]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں ان الفاظ سے مطابقت لی جائے گی، اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی سے فرمایا، «لا باس طهور انشاءالله» تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے کا رد کیا تو پھر وہ اسی طرح سے مرا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا، (اس کی موت کی پیشن گوئی کا)۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کے مطابق باب اور حدیث میں مناسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کی وجہ سے ہوتی ہے، کیونکہ پیشن گوئی کرنا یہ نبی کا معجزہ ہوتا ہے اور ترجمۃ الباب میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی چیز کو ظاہر فرمایا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 37   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5656  
5656. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے فرمایا: اور نبی ﷺ جب کسی مریض کے ہاں اس کی عیادت کے لےجاتے تو اس سے کہتے: فکر کی کوئی بات نہیں، یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے إن شاء اللہ۔ اس اعرابی نے کہا: آپ کہتے ہیں: یہ پاک کرنے والی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر رہے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5656]
حدیث حاشیہ:
بوڑھے کے منہ سے بجائے کلمات شکر کے ناشکری کا لفظ نکلا تو آپ نے بھی ایسا فرمایا اور جو آپ نے فرمایا وہی ہوا۔
ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش اخلاقی دیکھئے کہ آپ ایک دیہاتی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور آپ نے اپنی پاکیزہ دعاؤں سے اسے نوازا۔
سچ ہے:
﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5656   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5656  
5656. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے فرمایا: اور نبی ﷺ جب کسی مریض کے ہاں اس کی عیادت کے لےجاتے تو اس سے کہتے: فکر کی کوئی بات نہیں، یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے إن شاء اللہ۔ اس اعرابی نے کہا: آپ کہتے ہیں: یہ پاک کرنے والی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر رہے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5656]
حدیث حاشیہ:
(1)
چونکہ وہ دیہاتی معاشرتی آداب سے نا واقف تھا، اس لیے اس نے جو جواب دیا اس کے اکھڑ مزاج ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر تیرا یہی گمان ہے تو عنقریب پورا ہو جائے گا۔
چنانچہ بعض احادیث میں صراحت ہے کہ وہ اگلے دن صبح کو چل بسا۔
(فتح الباري: 148/10) (2)
شارح صحیح بخاری مہلب نے کہا ہے:
امام کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کی خبر گیری کرتا رہے اور بیمار پرسی میں کوتاہی نہ کرے اگرچہ وہ سنگدل ہوں۔
اس میں اہل خانہ کی خاطر داری اور حوصلہ افزائی بھی ہے۔
اسی طرح عالم کو چاہیے کہ وہ جاہل کی عیادت کرے اور اسے وعظ و نصیحت کرے جس سے اسے نفع حاصل ہو، نیز اسے صبر کی تلقین کرے تاکہ وہ بیماری کو برا خیال نہ کرے۔
ایسا نہ ہو کہ اس کے نازیبا کلمات کہنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے۔
بیمار کو بھی چاہیے کہ وہ گھبراہٹ میں ایسے کلمات نہ کہے جس سے اس کی بے صبری ظاہر ہو۔
(عمدة القاري: 652/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5656