صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
17. بَابُ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ الْغُرُوبِ:
باب: جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے پڑھ سکا تو اس کی نماز ادا ہو گئی۔
حدیث نمبر: 558
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَثَلُ الْمُسْلِمِينَ، وَالْيَهود، والنَّصَارَى كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ قَوْمًا يَعْمَلُونَ لَهُ عَمَلًا إِلَى اللَّيْلِ فَعَمِلُوا إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ، فَقَالُوا: لَا حَاجَةَ لَنَا إِلَى أَجْرِكَ فَاسْتَأْجَرَ آخَرِينَ، فَقَالَ: أَكْمِلُوا بَقِيَّةَ يَوْمِكُمْ وَلَكُمُ الَّذِي شَرَطْتُ فَعَمِلُوا حَتَّى إِذَا كَانَ حِينَ صَلَاةِ الْعَصْرِ، قَالُوا: لَكَ مَا عَمِلْنَا، فَاسْتَأْجَرَ قَوْمًا فَعَمِلُوا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمْ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ وَاسْتَكْمَلُوا أَجْرَ الْفَرِيقَيْنِ".
ہم سے ابوکریب محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے ابوبردہ عامر بن عبداللہ سے، انہوں نے اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں اور یہود و نصاری کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے کہ جس نے کچھ لوگوں سے مزدوری پر رات تک کام کرنے کے لیے کہا۔ انہوں نے آدھے دن کام کیا۔ پھر جواب دے دیا کہ ہمیں تمہاری اجرت کی ضرورت نہیں، (یہ یہود تھے) پھر اس شخص نے دوسرے مزدور بلائے اور ان سے کہا کہ دن کا جو حصہ باقی بچ گیا ہے (یعنی آدھا دن) اسی کو پورا کر دو۔ شرط کے مطابق مزدوری تمہیں ملے گی۔ انہوں نے بھی کام شروع کیا لیکن عصر تک وہ بھی جواب دے بیٹھے۔ (یہ نصاریٰ تھے) پس اس تیسرے گروہ نے (جو اہل اسلام ہیں) پہلے دو گروہوں کے کام کی پوری مزدوری لے لی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:558  
558. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر رکھا کہ وہ رات رک کام کریں۔ انہوں نے دوپہر تک کام کیا اور کہنے لگے: ہمیں تیری مزدوری کی ضرورت نہیں، چنانچہ اس آدمی نے کچھ اور لوگوں کو مزدوری پر رکھا اور کہا: تم دن کا بقیہ وقت کام کرو، تمہیں وہی مزدوری ملے گی جو میں نے طے کی تھی۔ انہوں نے کام کیا حتی کہ جب نماز عصر کا وقت ہوا تو کہنے لگے: تیرا کام تجھے مبارک ہو، ہم نے جو کام کیا ہے اس کی بھی مزدوری نہیں لیتے، چنانچہ اس نے اور لوگوں کو مزدوری پر رکھا جنہوں نے بقیہ دن کام کیا تاآنکہ سورج غروب ہو گیا۔ اس طرح وہ پہلے دونوں گروہوں کی مزدوری کے حق دار بن گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:558]
حدیث حاشیہ:
(1)
گزشتہ احادیث کی طرح اس حدیث میں بھی امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر کا آخری وقت بتانا ہے، چنانچہ حدیث سے پتا چلتا ہے کہ کام کی مدت غروب آفتاب ہے اور عصر سے مغرب تک کے وقت کو ایک وقت قرار دیا گیا ہے، نیز اس وقت کا کام نماز عصر ہی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے۔
پھر اس حدیث میں جو مثال پیش کی گئی ہے، اس میں پہلے گروہ سے مراد اہل تورات، یعنی یہودی ہیں جنھیں موسوی شریعت کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا، پھر جب حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لائے تو ان کے پیچھے چلنے کا حکم دیا گیا، چنانچہ وہ اس سے بھاگ گئے۔
دوسرا گروہ اہل انجیل، یعنی عیسائیوں کا ہے جو عیسیٰ ؑ پر ایمان لائے اور اس وقت کی شریعت پر عمل پیرا رہے، لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو انھیں آپ پر ایمان لانے کا حکم ہوا، انھوں نے اس بات سے انکار کردیا۔
تیرے گروہ سے مراد ہم مسلمان ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور قیامت تک آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل پیرا رہنے کےلیے تیار ہوئے۔
واضح رہے کہ ابن عمر اور ابو موسیٰ اشعری ؓ کی احادیث میں دو الگ الگ واقعات بیان ہوئے ہیں۔
ان میں اتنی بات تو مشترک ہے کہ تین تین فریق ہیں اور ہرفریق سے معاملہ الگ الگ ہے، لیکن ان میں حسب ذیل فرق ہے:
٭ پہلی روایت میں مدت اجارہ کی صراحت نہیں جبکہ دوسری رویت میں رات تک کی تصریح ہے۔
٭پہلی روایت میں ہے کہ پہلے دونوں گروہ کام کرتے کرتے عاجز ہوگئے اور انھیں ایک ایک قیراط دیا گیا جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے اجرت لینے سے صاف انکار کردیا۔
٭پہلی روایت میں یہودونصاریٰ کے ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو اپنے دور میں دین پر قائم رہے اور اس پر عمل کیا لیکن اس کے منسوخ ہونے سے پہلے فوت ہو گئے اور دوسری حدیث میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو دین میں تحریف کرنے کے مرتکب ہوئے اور اس سے بے زاری کا اظہارکیا۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 558