صحيح البخاري
كتاب المرضى -- کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
19. بَابُ تَمَنِّي الْمَرِيضِ الْمَوْتَ:
باب: مریض کا موت کی تمنا کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 5671
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْيَقُلْ، اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت بنانی نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی تکلیف میں اگر کوئی شخص مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیئے اور اگر کوئی موت کی تمنا کرنے ہی لگے تو یہ کہنا چاہیئے «اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي،‏‏‏‏ وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي» اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب موت میرے لیے بہتر ہو تو مجھ کو اٹھا لے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 426  
´مصیبت و تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا و خواہش نہیں کرنی چاہیے`
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو اس مصیبت و تکلیف کی وجہ سے جو اس پر نازل ہوئی ہو موت کی تمنا و خواہش ہرگز نہیں کرنی چاہیے . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 426]
لغوی تشریح:
«لَا يَتْمَنَّيَنَّ» تمني سے ماخوذ ہے۔ اس میں نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے اور نہی کا صیغہ ہے۔
«لَضُرَّ» ضاد پر ضمہ ہے اور کبھی فتحہ بھی آ جاتا ہے۔ کسی جانی اور مالی نقصان اور ضرر کی وجہ سے۔
«لَاُبدْ» با پر ضمہ اور دال پر تشدید ہے۔ ضروری اور لازمی طور پر۔
«أحْيِنِيي» اس میں ہمزہ قطعی ہے یعنی باب افعال کا ہے۔ معنی ہیں، مجھے زندگی عطا فرما۔
«تَوَفَّنِيْ» مجھے وفات دے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث دنیوی مصائب و آلام اور رشتوں سے تنگ آ کر موت کی تمنا و خواہش کرنے کو مکروہ قرار دیتی ہے کیونکہ یہ عدم رضا بالقضا کی خبر دیتی ہے، البتہ شہادت فی سبیل اللہ کی خواہش اور دین کے بارے میں فتنے کے اندیشے کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا مکروہ و ناپسندیدہ نہیں ہے۔
➋ ایک سچے پکے مومن کے لیے زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ نیک آدمی زندگی کی صورت میں اپنے نیک اعمال اور صالح افعال میں اضافہ ہی کرے گا، اور سابقہ گناہوں سے اسے تائب ہونے کا موقع نصیب ہو گا۔ اگر آدمی برا ہے، بدکردار اور بداعمال ہے تو اسے موقع غنیمت ملے گا کہ توبہ کر لے اور راہ راست پر گامزن ہو کر اپنی آخروی زندگی سدھار لے، اس لیے دنیوی مصائب و آلام، مفلسی، غربت اور بیماری وغیرہ سے تنگ آخر موت کی آرزو نہ کرے، البتہ رب کائنات سے ملاقات کے شوق میں موت کی آرزو کمال ایمان کی نشانی اور علامت ہے۔
➌ اگر دین کے بارے میں کسی فتنے اور آزمائش کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی موت کی تمنا اور آرزو کی جا سکتی ہے۔ دنیوی مشکلات و تکالیف تو مومن کی درجات کی بلندیوں پر پہنچا کا باعث ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 426   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4265  
´موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پیش آئے موت کی تمنا نہ کرے، اگر موت کی خواہش کی ضرورت پڑ ہی جائے تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے اگر مرنا میرے لیے بہتر ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4265]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
کیونکہ اس میں نیکیاں کرکے بندہ اللہ کو راضی کرسکتاہے اور جنت کے بلند درجات حاصل کرسکتا ہے۔

(2)
موت کی دعا زندگی کی نعمت کی ناشکری ہے۔

(3)
موت کی تمنا بے صبری کا اظہار بھی ہے۔
اور اللہ کی رحمت سے مایوسی بھی، اس لئے موت کی دعا کرنے کی بجائے مشکلات ٹل جانے کی دعا کرنا زیادہ بہتر ہے۔

(4)
حدیث میں ذکر کردہ دعا میں اللہ پر توکل اور اللہ کے فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کرنے کا اظہار ہے۔

(5)
دنیا کی مشکلات وقتی ہیں۔
جبکہ اللہ کی ناراضگی آخرت کی ابدی نعمتوں سے محرومی کا باعث ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4265   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5671  
5671. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا پرگز نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اسکے بغیر چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میری وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے فوت کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5671]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جب تک دنیا میں رہے اپنی بہتری اور بھلائی کی دعا کرتا رہے اور بہترین وفات کی دعا مانگے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5671   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5671  
5671. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا پرگز نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اسکے بغیر چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میری وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے فوت کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5671]
حدیث حاشیہ:
انسان جب تک دنیا میں رہے اپنی بہتری اور بھلائی کی دعا کرتا رہے، اور اگر اسے اپنی زندگی میں کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور اسے اپنی آخرت کے تباہ ہونے کا خطرہ ہو تو حدیث میں مذکورہ الفاظ سے دعا کی جا سکتی ہے۔
یہ الفاظ موت طلب کرنے کے زمرے میں نہیں آتے۔
ان الفاظ میں انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہے اور یہ تسلیم و رضا کے منافی بھی نہیں ہیں۔
(فتح الباري: 159/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5671