صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
17. بَابُ مَنِ اكْتَوَى أَوْ كَوَى غَيْرَهُ، وَفَضْلِ مَنْ لَمْ يَكْتَوِ:
باب: داغ لگوانا یا لگانا اور جو شخص داغ نہ لگوائے اس کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5704
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْغَسِيلِ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَدْوِيَتِكُمْ شِفَاءٌ فَفِي: شَرْطَةِ مِحْجَمٍ، أَوْ لَذْعَةٍ بِنَارٍ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَكْتَوِيَ".
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن سلیمان بن غسیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عاصم بن عمر بن قتادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری دواؤں میں شفاء ہے تو پچھنا لگوانے اور آگ سے داغنے میں ہے لیکن آگ سے داغ کر علاج کو میں پسند نہیں کرتا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5704  
5704. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اگر تمہاری دواؤں میں شفا ہے تو سینگی لگوانے اور آگ سے داگ دینے میں ہے لیکن آگ سے داغ کر علاج کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5704]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسے پسند نہ کریں اسے کسی مسلمان کو پسند نہ کرنا تقاضائے محبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5704   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5704  
5704. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اگر تمہاری دواؤں میں شفا ہے تو سینگی لگوانے اور آگ سے داگ دینے میں ہے لیکن آگ سے داغ کر علاج کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5704]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں انتہائی اختصار ہے کیونکہ ایک تو اس میں شہد کا ذکر نہیں ہے دوسرے ان دواؤں کے مرض سے موافق ہونے کا بیان نہیں جبکہ یہ دونوں حدیث میں ہیں۔
(صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5683) (2)
اس سے علاج بذریعۂ آگ کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں شفا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اگرچہ آپ نے اس طریقے کو پسند نہیں کیا لیکن ضروری نہیں جسے آپ پسند نہ فرمائیں وہ جائز نہ ہو۔
سانڈے کا گوشت آپ کو پسند نہیں تھا لیکن آپ کے سامنے اسے کھایا گیا، پھر آپ نے چند صحابۂ کرام کا علاج اس طریقے سے کیا ہے، مثلاً:
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جب غزوۂ خندق میں زخمی ہو گئے تھے تو آپ نے خود انہیں رگ اکحل پر آگ سے داغ دیا تھا، (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5748 (2208)
لیکن فضیلت اسی میں ہے کہ اس طریقۂ علاج کو اختیار نہ کیا جائے ہاں اگر کوئی دوسرا طریقہ کارگر نہ ہو تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس سے شفا کی حتمی امید ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5704