صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
27. بَابُ حَرْقِ الْحَصِيرِ لِيُسَدَّ بِهِ الدَّمُ:
باب: زخموں کا خون روکنے کے لیے بوریا جلا کر زخم پر لگانا۔
حدیث نمبر: 5722
حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: لَمَّا كُسِرَتْ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْضَةُ وَأُدْمِيَ وَجْهُهُ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَكَانَ عَلِيٌّ يَخْتَلِفُ بِالْمَاءِ فِي الْمِجَنِّ وَجَاءَتْ فَاطِمَةُ تَغْسِلُ، عَنْ وَجْهِهِ الدَّمَ فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام الدَّمَ يَزِيدُ عَلَى الْمَاءِ كَثْرَةً عَمَدَتْ إِلَى حَصِيرٍ فَأَحْرَقَتْهَا وَأَلْصَقَتْهَا عَلَى جُرْحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَقَأَ الدَّمُ.
مجھ سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا، اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر (احد کے دن) خود ٹوٹ گیا آپ کا مبارک چہرہ خون آلود ہو گیا اور سامنے کے دانت ٹوٹ گئے تو علی رضی اللہ عنہ ڈھال بھربھر کر پانی لاتے تھے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں۔ پھر جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ خون پانی سے بھی زیادہ آ رہا ہے تو انہوں نے ایک بوریا جلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں پر لگایا اور اس سے خون رکا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5248  
´اللہ کا سورۃ النور میں یہ فرمانا اور عورتیں اپنے زینت اپنے شوہر کے سوا کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں`
«. . . عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ:" اخْتَلَفَ النَّاسُ بِأَيِّ شَيْءٍ دُووِيَ جُرْحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَسَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَكَانَ مِنْ آخِرِ مَنْ بَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ: وَمَا بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، كَانَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام تَغْسِلُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وعَلِيٌّ يَأْتِي بِالْمَاءِ عَلَى تُرْسِهِ، فَأُخِذَ حَصِيرٌ، فَحُرِّقَ، فَحُشِيَ بِهِ جُرْحُهُ . . .»
. . . ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا کہ اس واقعہ میں لوگوں میں اختلاف تھا کہ احد کی جنگ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کون سی دوا استعمال کی گئی تھی۔ پھر لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، وہ اس وقت آخری صحابی تھے جو مدینہ منورہ میں موجود تھے۔ انہوں نے بتلایا کہ اب کوئی شخص ایسا زندہ نہیں جو اس واقعہ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں اور علی رضی اللہ عنہ اپنے ڈھال میں پانی بھر کر لا رہے تھے۔ (جب بند نہ ہوا تو) ایک بوریا جلا کر آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5248]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5248 کا باب: «بَابُ: {وَلاَ يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ} إِلَى قَوْلِهِ: {لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنی زیبائش و زینت کی چیز اپنے خاوند یا محرم کے سوا کسی اور پر ظاہر نہیں کر سکتی اور اس مسئلے کی تائید کے لیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ درج فرمایا ہے، لیکن بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت دکھائی نہیں دیتی، شارحین نے اس مناسبت کو قائم کرنے کے لئے کچھ معروضات پیش کی ہیں۔

چنانچہ عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ راقم ہیں:
«باشرت ذالك من أبيها مع حضرة بعلها، فيطابق الاية، وهى جواز ابداء زينتها لأبيها وبعلها.» [لب اللباب: 214/4]
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند کی موجودگی میں مرہم پٹی کی اپنے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، پس مطابقت ترجمۃ الباب سے حدیث کا ہونا یہاں سے ثابت ہوا اور یہ جواز ہے کہ عورت اپنی زینت (چہرہ، ہتھیلیاں وغیرہ) اپنے خاوند اور والد کے سامنے کھول سکتی ہے۔

عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ کے اس مفید قول سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود پتہ چلتا ہے کہ عورت اپنے مواقع زینت کو شوہر، اپنے والد اور اپنے بیٹے وغیرہ کے سامنے کھول سکتی ہے۔

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض آیت اور حدیث سے یہ بتلانا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرہم پٹی کے لیے اپنے ہاتھوں اور چہرے کو کھولا ہو گا، پس یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ [الابواب و التراجم: 578/5]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 97   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5722  
5722. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ جب نبی ﷺ کے سر مبارک پر خود ٹوٹ گیا اور آپ کا چہرہ مبارک خون آلود ہو گیا، نیز سامنے کے دو دانت بھی ٹوٹ گئے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں۔ پھر جب سیدہ فاطمہ‬ ؓ ن‬ے دیکھا کہ خون پانی سے بھی زیادہ آ رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ رسول اللہ ﷺ کے ذخموں پر لگائی تو خون رک گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5722]
حدیث حاشیہ:
خود لوہے کا سر کو ڈھانکنے والا کن ٹوپ یہ ٹوٹ کر چہرہ مبارک میں گھس گیا تھا اس وجہ سے چہرہ خون آلود ہو گیا تھا اس موقع کا ذکر ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے یہ جنگ احد کا واقعہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5722   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5722  
5722. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ جب نبی ﷺ کے سر مبارک پر خود ٹوٹ گیا اور آپ کا چہرہ مبارک خون آلود ہو گیا، نیز سامنے کے دو دانت بھی ٹوٹ گئے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں۔ پھر جب سیدہ فاطمہ‬ ؓ ن‬ے دیکھا کہ خون پانی سے بھی زیادہ آ رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ رسول اللہ ﷺ کے ذخموں پر لگائی تو خون رک گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5722]
حدیث حاشیہ:
(1)
حصیر، عربوں میں کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی تھی۔
راکھ کھجور کے پتوں کی ہو یا پٹ سن کے بورے کی یا سوتے کپڑے کی، خون بند کر دیتی ہے۔
اس سے خون کی رگیں بند کرنا مقصود تھا، انہیں بند کرنے سے خون خود بخود بند ہو جاتا ہے۔
(2)
راکھ کی یہ خصوصیت ہے کہ جب اسے زخم پر چپکا دیا جاتا ہے تو یہ خون بند کر دیتی ہے اور اس کے جاری ہونے کی جگہ کو بھی خشک کر دیتی ہے، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(باب التداوي بالرماد)
راکھ سے علاج کرنا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ پانی کے ساتھ خون کو اس وقت دھویا جائے جب زخم گہرا نہ ہو لیکن جب زخم گہرا ہو تو اس میں پانی پڑ جانے سے نقصان کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 215/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5722