صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
30. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الطَّاعُونِ:
باب: طاعون کا بیان۔
حدیث نمبر: 5729
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ، أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِأَرْضِ الشَّأْمِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَرُ: ادْعُ لِي الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّأْمِ، فَاخْتَلَفُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي الْأَنْصَارَ فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ، وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلَافِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْفَتْحِ، فَدَعَوْتُهُمْ فَلَمْ يَخْتَلِفْ مِنْهُمْ عَلَيْهِ رَجُلَانِ، فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ، إِنِّي مُصَبِّحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ، قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ: أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ! فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ: نَعَمْ، نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ هَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصِبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ وَإِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي فِي هَذَا عِلْمًا: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ، قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب نے، انہیں عبداللہ بن عبداللہ بن حارث بن نوفل نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام تشریف لے جا رہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراء ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے امیرالمؤمنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا لاؤ۔ آپ انہیں بلا لائے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے، مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہو گئیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ انہیں اس وبا میں ڈال دیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا اب آپ لوگ تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ۔ میں انصار کو بلا کر لایا آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا چلو، کوئی کہنے لگا لوٹ جاؤ۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے انہیں بلا لاؤ، میں انہیں بلا کر لایا۔ ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی ملک میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں۔ یہ سنتے ہی عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہو کر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا تم لوگ بھی واپس چلو۔ صبح کو ایسا ہی ہوا ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کاش! یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک سرسبز شاداب اور دوسرا خشک۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سرسبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہو گا۔ اور خشک کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہو گا۔ بیان کیا کہ پھر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آ گئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس مسئلہ سے متعلق ایک علم ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی سر زمین میں (وبا کے متعلق) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آ جائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس ہو گئے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 434  
´طاعون والی جگہ جانا اور وہاں سے فرار جائز نہیں`
«. . . سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه. . .»
. . . میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم اس وبا کے بارے میں سنو کہ کسی علاقے میں پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی ایسے علاقے میں وبا پھیل جائے جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 434]

تخریج الحدیث:
[و اخرجه البخاري 5729، ومسلم 2219، من حديث مالك به]

تفقہ:
➊ طاعون اور وبا والے علاقے سے لوگوں کو نہ بھاگنے اور باہر والوں کے وہاں نہ جانے میں کئی حکمتیں ہیں مثلاً:
اول: اگر یہ بیماری اس علاقے کے باہر والے کسی شخص کو لگ گئی تو اس کا عقیدہ خراب ہو سکتا ہے کہ اس بیماری میں بذات خود چھوت پن اور متعدی مرض لگنے کی صلاحیت ہے۔ یہی معاملہ باہر سے آنے والے شخص کا ہے جسے یہ بیماری لگ جائے لہٰذا اس غلط عقیدے کا سدباب کیا گیا ہے۔
دوم: افراتفری اور خوف و ہراس نہ پھیلے۔
➋ صحیح حدیث اگرچہ خبر واحد ہو، حجت ہے کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پر عمل کیا تھا۔ دیکھئے: حدیث [موطا امام مالك: 9]
➌ اصحاب اقتدار کو چاہئے کہ وہ اجتہادی امور میں اصحاب حل و عقد کے مشورے سے عمل کریں۔
➍ عام مسلمانوں کو بھی اہم امور میں اپنے قابل اعتماد بھائیوں سے مشورہ کرنا چاہئے۔
➎ جس مسئلے کے بارے میں کتاب و سنت واجماع میں صریح دلیل نہ ہو تو عموم ادلہ (عام دلیل) سے استدلال یا اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔
➏ حقیقی علم قرآن و حدیث ہے۔
➐ یہ عین ممکن ہے کہ چھوٹے عالم کو وہ دلیل معلوم ہو جو بڑے عالم کو معلوم نہیں ہے۔
➑ اس صحیح حدیث کے خلاف مرزا غلام احمد قادیانی (متنبی کذاب) لکھتا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے۔ [مجموعه اشتهارات ج2 ص 713] مرزا کا یہ بیان سراسر جھوٹ ہے۔
➒ حدیث رسول کا علم ہو جانے کے بعد قیل و قال کے بجائے فوراً سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔
➓ صحابہ کرام کے مبارک دور میں تقلید نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 63   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5729  
5729. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ملک شام تشریف لے جارہے تھے، جب سرغ مقام پر پہنچے تو آپ کی ملاقات امراء افواج حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: مہاجرین اولین کو میرے پاس بلاؤ۔ ان کو بلایا تو ان سے مشورہ طلب کیا اور ان سے کہا کہ شام مین طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے مہاجرین اولین نے باہم اختلاف رائے کیا: بعض نے کہا: آپ ایک عظیم مقصد (جہاد) کے لیے نکلے ہیں، لہذا ہم آپ کا واپس چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے جبکہ کچھ دوسرے حضرات نے کہا کہ آپ کےساتھ رسول اللہ ﷺ کے باقی ماندہ صحابہ کرام‬ ؓ ہ‬یں ہم یہ مناسب نہیں سمجھتےکہ آپ ان کو لے کروبائی علاقے میں جائیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: آپ حضرات تشریف لے جائیں۔ پھر فرمایا: انصار کو بلاؤ۔ حضرت عباس کہتے ہیں کہ انصا کو بلالایا۔ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5729]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا جواب دیا جو بہت ہی لاجواب تھایعنی بھاگنا بھی بتقدیر الٰہی ہے کیونکہ کوئی کام دنیا میں جب تک تقدیر میں نہ ہو واقع نہیں پڑتا۔
اس حدیث سے یہ نکلا کہ اگر کسی ملک یا قصبہ میں وبا واقع ہو تو وہاں نہ جانا بلکہ وہاں سے لوٹ آنا درست ہے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ تھی ان کی رائے ہمیشہ حکم الٰہی کے موافق ہوا کرتی تھی۔
اس مسئلہ میں بھی موافق ہوئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ مع ساتھیوں کے مدینہ کی طرف لوٹ کرچلے۔
حضرت ابو عبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہااگر یہ کلمہ کوئی اور کہتا تو اس کو سزا دیتا۔
یہ قصہ طاعون عمواس سے تعلق رکھتا ہے یہ سنہ 18ھ کا واقعہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کے ملک کا سرکاری دورہ کرنے نکلے تھے کہ طاعون عمواس کا ذکر آپ کے سامنے کیا گیا اس وقت ملک شام آپنے کئی مواضعات میں تقسیم کر رکھا تھا ہر جگہ فوج کا ایک ایک سردار تھا۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور زید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اور عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ یہ سب گورنر تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5729   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5729  
5729. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ملک شام تشریف لے جارہے تھے، جب سرغ مقام پر پہنچے تو آپ کی ملاقات امراء افواج حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: مہاجرین اولین کو میرے پاس بلاؤ۔ ان کو بلایا تو ان سے مشورہ طلب کیا اور ان سے کہا کہ شام مین طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے مہاجرین اولین نے باہم اختلاف رائے کیا: بعض نے کہا: آپ ایک عظیم مقصد (جہاد) کے لیے نکلے ہیں، لہذا ہم آپ کا واپس چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے جبکہ کچھ دوسرے حضرات نے کہا کہ آپ کےساتھ رسول اللہ ﷺ کے باقی ماندہ صحابہ کرام‬ ؓ ہ‬یں ہم یہ مناسب نہیں سمجھتےکہ آپ ان کو لے کروبائی علاقے میں جائیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: آپ حضرات تشریف لے جائیں۔ پھر فرمایا: انصار کو بلاؤ۔ حضرت عباس کہتے ہیں کہ انصا کو بلالایا۔ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5729]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ اٹھارہ ہجری کا واقعہ ہے۔
شام کے علاقہ عمواس میں طاعون کی وبا پھیلی۔
عمواس، رملہ اور بیت المقدس کے درمیان ایک قصبے کا نام ہے۔
اس وبا سے تقریباً تیس ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔
یہ وہ طاعون تھا جو اسلام میں سب سے پہلے واقعہ ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے شام جانا چاہتے تھے، لیکن راستے میں طاعون کے پھوٹ پڑنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے واپسی کا پروگرام بنایا۔
اگرچہ انہیں اس کے متعلق کوئی حدیث معلوم نہ تھی لیکن اکثر ان کی رائے حکم الٰہی کے موافق ہوا کرتی تھی، بعد میں جب پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی ارشاد ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
(2)
بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی ملک یا قصبے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑے تو وہاں نہیں جانا چاہیے اور وہاں کے لوگوں کو اس مقام سے نہیں نکلنا چاہیے اور ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کرنا نہیں بلکہ تقدیر ہی کا ایک حصہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5729