صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
38. بَابُ رُقْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (بیماری سے شفاء کے لیے) دم۔
حدیث نمبر: 5742
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ:" دَخَلْتُ أَنَا وَثَابِتٌ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ اشْتَكَيْتُ، فَقَالَ أَنَسٌ: أَلَا أَرْقِيكَ بِرُقْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا کہ میں اور ثابت بنانی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ثابت نے کہا: ابوحمزہ! (انس رضی اللہ عنہ کی کنیت) میری طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا پھر کیوں نہ میں تم پر وہ دعا پڑھ کر دم کر دوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے، ثابت نے کہا کہ ضرور کیجئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے اس پر یہ دعا پڑھ کر دم کیا «اللهم رب الناس مذهب الباس اشف أنت الشافي لا شافي إلا أنت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ شفاء لا يغادر سقما» اے اللہ! لوگوں کے رب! تکلیف کو دور کر دینے والے! شفاء عطا فرما، تو ہی شفاء دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفاء دینے والا نہیں، ایسی شفاء عطا فرما کہ بیماری بالکل باقی نہ رہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5742  
5742. حضرت عبدالعزیز سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں اور حضرت ثابت حضرت انس بن مالک ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ثابت نے کہا: اے ابو حمزہ! میری طبیعت ناساز ہے۔ حضرتانس ؓ نے فرمایا: کیا میں تجھے رسول اللہ ﷺ کا دم نہ کروں؟ ثابت نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ حضرت انس ؓ نے یہ دعا پڑھ کر دم کیا: اے اللہ، لوگوں کے رب! اے تکلیف دور کرنے والے! تو شفا عطا فرما، (بے شک) تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا اور کوئی شفا والا دینے نہیں۔ تو ایسی شفا عطا فر کہ بیماری بالکل نہ رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5742]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت اس وقت کچھ ناساز تھی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ان لفظوں سے آپ پر دم کیا، ﴿بسم اللہ ارقیک من کل شئی یوذیک من شر کل نفس او عین حاسد اللہ یشفیک﴾ (رواہ مسلم)
دم جھاڑ کرنے والوں کو ایسی مسنون وماثور دعاؤں سے دم کرنا چاہیئے اور خود ساختہ دعاؤں سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ مسنون دعاؤں سے دم کرنا کرانا بھی سنت ہے اور یقینا مسنون دعاؤں سے دم کرنے کرانے کا زبردست اثر ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5742   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5742  
5742. حضرت عبدالعزیز سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں اور حضرت ثابت حضرت انس بن مالک ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ثابت نے کہا: اے ابو حمزہ! میری طبیعت ناساز ہے۔ حضرتانس ؓ نے فرمایا: کیا میں تجھے رسول اللہ ﷺ کا دم نہ کروں؟ ثابت نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ حضرت انس ؓ نے یہ دعا پڑھ کر دم کیا: اے اللہ، لوگوں کے رب! اے تکلیف دور کرنے والے! تو شفا عطا فرما، (بے شک) تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا اور کوئی شفا والا دینے نہیں۔ تو ایسی شفا عطا فر کہ بیماری بالکل نہ رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5742]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے مذکورہ دم کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم کرنا ثابت کیا ہے۔
دم کرنے والوں کو مسنون دعاؤں سے دم کرنا چاہیے۔
مسنون دعاؤں سے دم کرنا اور دم کرانا سنت ہے۔
بلاشبہ یقیناً اس سے دم کرنے کرانے کا زبردست اثر ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں خودساختہ دم اور بناوٹی دعاؤں سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔
مسنون دعائیں اپنے اندر کیمیا کا اثر رکھتی ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5742