صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
38. بَابُ رُقْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (بیماری سے شفاء کے لیے) دم۔
حدیث نمبر: 5744
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَرْقِي يَقُولُ امْسَحْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِيَدِكَ الشِّفَاءُ لَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا أَنْتَ.
مجھ سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دم کیا کرتے تھے اور یہ دعا پڑھتے تھے «امسح الباس رب الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏بيدك الشفاء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏لا كاشف له إلا أنت‏"‏‏.‏» تکلیف کو دور کر دے، اے لوگوں کے پالنہار! تیرے ہی ہاتھ میں شفاء ہے، تیرے سوا تکلیف کو دور کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1619  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ حفاظت و عافیت کی دعا کرتے تھے «أذهب الباس رب الناس. واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» اے لوگوں کے رب! بیماری دور کر دے، اور شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، شفاء تو بس تیری ہی شفاء ہے، تو ایسی شفاء عنایت فرما کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بیماری سخت ہو گئی جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرتی تھی، اور یہ کلمات کہتی جاتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1619]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دعا کے ساتھ اللہ کی پناہ حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بیماری سے حفاظت یا نجات کے لئے ان الفاظ کے ساتھ اللہ سے دعا فرمایا کرتے تھے۔

(2)
بیماری کے موقع پر مسنون الفاظ کے ساتھ دعا اور دم کرنا چاہیے تاکہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے۔

(3)
مشکلات کو حل کرنے اور بیماری سے شفا دینے کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
خود نبی کریمﷺ نے بھی اللہ ہی سے شفا مانگی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا۔
﴿وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ﴾  (الشعراء۔ 80، 26)
 اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو وہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔
اس لئے صحت وعافیت کا سوال صرف اللہ ہی سے کرنا چاہیے۔

(4) (الرفیق الاعلیٰ)
سے مراد انبیاء واولیاء ہیں جو نبی کریمﷺ سے پہلے ر حلت فرما کر جنت میں پہنچ گئے جیسے کہ اگلی حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔

(5)
رسول اللہ ﷺ کے ان الفاظ کو موت کی تمنا قرار نہیں دینا چاہیے۔
بلکہ یہ اللہ کے فیصلے پر رضامندی (رضا بالقضا)
کا اظہار ہے موت کی تمنا اس وقت منع ہے۔
جب اس کا سبب دنیا کی مشکلات سے پریشانی ہو۔
شہادت کی تمنا بھی ممنوع نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1619   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5744  
5744. سیدہ عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھ کر دم کرتے تھے: اے لوگوں کے رب! تکلیف دور کردے۔ تیرے ہاتھ ہی میں شفا ہے تیرے سوا کوئی بھی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5744]
حدیث حاشیہ:
یہ فرماکر آپ نے شرک کی جڑ بنیاد اکھیڑ دی۔
جب اس کے سوا کوئی درد دکھ تکلیف دفع نہیں کرسکتا تو اس کے سوا کسی بت دیوتا یا پیر کو پکارنا محض نادانی وحماقت ہے۔
اس سے قبوریوں کو سبق لینا چاہیے جو دن رات اہل قبور سے استدعا کرتے رہتے ہیں اور مزارات بزرگوں کو قبلہ حاجات سمجھے بیٹھے ہیں۔
حالانکہ خود قرآن پاک کا بیان ہے ﴿ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا ولواجتمعوا لہ﴾ (الحج: 73)
حاجات کے لیے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو یہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اس آیت میں سارے دیوی دیوتا پیروں ولیوں کے متعلق کہا گیا ہے جن کو لوگ پوجتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5744   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5744  
5744. سیدہ عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھ کر دم کرتے تھے: اے لوگوں کے رب! تکلیف دور کردے۔ تیرے ہاتھ ہی میں شفا ہے تیرے سوا کوئی بھی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5744]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں مسنون دم کی وضاحت ہے۔
اس سے شرک کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مصیبتیں، دکھ درد اور پریشانیاں دور نہیں کر سکتا۔
قرآن کریم میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا اسے دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہیں خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔
وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے۔
وہ بڑی مغفرت والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
(یونس: 10/107) (2)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی پہلی حدیث میں ''يُعَوِذُ" کے الفاظ تھے، امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث لا کر وضاحت فرمائی ہے کہ اس کے معنی دم کرنا ہیں تاکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی طرح یہ ثابت ہو کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم ہے۔
(فتح الباری: 10/256)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5744