صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
42. بَابُ مَنْ لَمْ يَرْقِ:
باب: دم جھاڑ نہ کرانے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 5752
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ:" عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ فَجَعَلَ يَمُرُّ النَّبِيُّ مَعَهُ الرَّجُلُ، وَالنَّبِيُّ مَعَهُ الرَّجُلَانِ، وَالنَّبِيُّ مَعَهُ الرَّهْطُ، وَالنَّبِيُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، وَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفُقَ، فَرَجَوْتُ أَنْ تَكُونَ أُمَّتِي، فَقِيلَ هَذَا مُوسَى وَقَوْمُهُ، ثُمَّ قِيلَ لِي: انْظُرْ، فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفُقَ، فَقِيلَ لِي انْظُرْ هَكَذَا وَهَكَذَا، فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفُقَ، فَقِيلَ هَؤُلَاءِ أُمَّتُكَ وَمَعَ هَؤُلَاءِ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ"، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَلَمْ يُبَيَّنْ لَهُمْ، فَتَذَاكَرَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: أَمَّا نَحْنُ فَوُلِدْنَا فِي الشِّرْكِ وَلَكِنَّا آمَنَّا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَلَكِنْ هَؤُلَاءِ هُمْ أَبْنَاؤُنَا فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هُمُ الَّذِينَ لَا يَتَطَيَّرُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَكْتَوُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ"، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا، فَقَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَاشَةُ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے حصین بن نمیر نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ہمارے پاس باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ (خواب میں) مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں۔ بعض نبی گزرتے اور ان کے ساتھ (ان کی اتباع کرنے والا) صرف ایک ہوتا۔ بعض گزرتے اور ان کے ساتھ دو ہوتے بعض کے ساتھ پوری جماعت ہوتی اور بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہوتا پھر میں نے ایک بڑی جماعت دیکھی جس سے آسمان کا کنارہ ڈھک گیا تھا میں سمجھا کہ یہ میری ہی امت ہو گی لیکن مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت کے لوگ ہیں پھر مجھ سے کہا کہ دیکھو میں نے ایک بہت بڑی جماعت دیکھی جس نے آسمانوں کا کنارہ ڈھانپ لیا ہے۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر دیکھو، ادھر دیکھو، میں نے دیکھا کہ بہت سی جماعتیں ہیں جو تمام افق پر محیط تھیں۔ کہا گیا کہ یہ آپ کہ امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بے حساب جنت میں داخل کئے جائیں گے پھر صحابہ مختلف جگہوں میں اٹھ کر چلے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں اس کے متعلق مذاکرہ کیا اور کہا کہ ہماری پیدائش تو شرک میں ہوئی تھی البتہ بعد میں ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے لیکن یہ ستر ہزار ہمارے بیٹے ہوں گے جو پیدائش ہی سے مسلمان ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بدفالی نہیں کرتے، نہ منتر سے جھاڑ پھونک کراتے ہیں اور نہ داغ لگاتے ہیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ سن کر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ فرمایا کہ ہاں۔ ایک دوسرے صاحب سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے بازی لے گئے کہ تم سے پہلے عکاشہ کے لیے جو ہونا تھا ہو چکا۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5752  
´ دم جھاڑ نہ کرانے کی فضیلت `
«. . . فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " هُمُ الَّذِينَ لَا يَتَطَيَّرُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَكْتَوُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بدفالی نہیں کرتے، نہ منتر سے جھاڑ پھونک کراتے ہیں اور نہ داغ لگاتے ہیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ/بَابُ مَنْ لَمْ يَرْقِ: 5752]

تخريج الحديث:
[131۔ البخاري فى: 76 كتاب الطب: 42 باب من لم يرق 3410، مسلم 220، ابن ماجه 6430]
لغوی توضیح:
«لَا يَتَطَيَّرُوْنَ» وہ بدشگونی نہیں پکڑتے۔
«لَا يَسْتَرْقُوْنَ» وہ دم طلب نہیں کرتے، حالانکہ دم کرنا اور کرانا جائز ہے جب تک کہ شرکیہ امور پر مشتمل نہ ہو۔ [مسلم: كتاب السلام: باب لا بأس بالرقي ما لم يكن فيه شرك 2200]
لیکن وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر کمال توکل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جائز چیز کو بھی ترک کر دیتے ہیں۔
«وَلَا يَكْتَوُوْنَ» وہ داغ نہیں لگواتے۔ یہ علاج کا ایک طریقہ تھا کہ جسم میں درد کے مقام پر گرم لوہے کی سلاخ سے داغ لگایا جاتا تھا۔ یہ کام اب جائز نہیں کیونکہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے۔ [بخاري: كتاب الطب 5680، ابن ماجه 3491، مسند أحمد 245/2]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 131   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2446  
´قیامت کے دن شفاعت پر ایک اور حدیث۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں آپ کا ایک نبی اور کئی نبیوں کے پاس سے گزر ہوا، ان میں سے کسی نبی کے ساتھ ان کی پوری امت تھی، کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی، کسی کے ساتھ کوئی نہ تھا، یہاں تک کہ آپ کا گزر ایک بڑے گروہ سے ہوا، تو آپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ موسیٰ اور ان کی قوم ہے، آپ اپنے سر کو بلند کیجئے اور دیکھئیے: تو یکایک میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو اس جانب سے اس جانب تک گھیر رکھا تھا، مجھ سے کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس کے سوا آپ ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2446]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے ان لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جو اللہ پر اعتماد،
بھروسہ اور توکل کرتے ہیں،
جھاڑ پھونک اور بدشگونی وغیرہ سے بھی بچتے ہیں باوجود یکہ مسنون دعاؤں کے ساتھ دم کرنا اور علاج معالجہ کرنا جائز ہے یہ اللہ رب العالمین پراعتمادوتوکل کی اعلی مثال ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2446   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 28  
´بغیر حساب و کتاب جنت میں جانے والے ستر ہزار لوگ`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزار بغیر حساب جنت میں جائیں گے۔ عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان میں سے بنا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اسے ان میں سے بنا دے۔ پھر دوسرے شخص نے عرض کیا: اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان میں سے بنا دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عکاشہ اس میں تم پر بازی لے گیا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 28]
فوائد:
ایک حدیث میں ہے سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ میرے رب نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ میری امت سے ستر ہزار افراد کو وہ بلا حساب اور عذاب، جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور ہر ہزار کے ساتھ (مزید) ستر ہزار آدمی جنت میں داخل فرمائے گا اور تین لپ بھرے ہوئے میرے رب کے اور بھی جنت میں داخل ہوں گے۔ [سنن ترمذي۔ ابواب صفة القيامه۔ باب ماجاء في الشفاعة]
مذکورہ حدیث سے اُمت محمدیہ کی فضیلت واضح ہے کہ انچاس لاکھ ستر ہزار افراد بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔ بعض روایات میں ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ بالا روایت سنا کر گھر تشریف لے گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں ان ستر ہزار کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے، بعض نے کہا: یہ وہ ہوں گے جو اسلام پر پیدا ہوئے اور انہوں نے شرک نہیں کیا۔ بعض نے کہا: جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا ہے یہ وہ لوگ ہیں۔ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی مختلف آراء کا اظہار کیا۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ ہیں:
«لَا يكتُوونَ وَلَا يَستَرِقونَ وَلايَتطَيَّرُونَ وَ علٰي رَبِّهِم يَتَوَكَلُونَ .» [صحيح بخاري: رقم: 6541]
جو داغ نہیں لگواتے، دم جھاڑ نہیں کرواتے، شگون نہیں لیتے، اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مذکورہ حدیث مبارکہ میں بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل ہونے والوں کی نمایاں صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ شرک کی کسی بھی قسم میں مبتلا نہیں ہوتے اور ان کا دم، داغ پر بھروسہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہیں کہ اس دوائی دم میں تب شفا ہو گی جب اللہ ذوالجلال نے دی یعنی اللہ پر پختہ یقین ہونا چاہئے۔ مذکورہ حدیث سے سیدنا عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بھی اثبات ہے کہ وہ قطعی طور پر بغیر حساب و کتاب جنت میں جائیں گے۔ جو دوسرے صحابی کھڑے ہوئے۔ وہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے تو فرمایا: عکاشہ اس میں تم پر بازی لے گیا مطلب یہ کہ وہ قبولیت کی گھڑی تھی جو اب نکل چکی ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 28   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5752  
5752. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تمام امتیں میرے سامنے پیش کی گئیں۔ بعض ایسے انبیا گزرے جن کے ساتھ صرف ایک ایک آدمی تھا اور بعض ایسے نبی بھی گزرے ہیں جن کے ساتھ دو آدمی تھے۔ کچھ انبیاء ایسے بھی تھے جن کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت تھی اور کچھ ایسے تھی تھے ان کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔ پھر میں نے ایک بڑی جماعت دیکھی جس نے افق کو ڈھانپ رکھا تھا میں نے خیال کیا شاید یہ میری امت ہے مجھے کہا گیا کہ یہ حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی امت کے لوگ ہیں پھر مجھے کہا گیا دیکھو۔ میں نے دیکھا وہاں بے شمار لوگ ہیں جن سے تمام افق بھرے پڑے تھے۔ پھر مجھ سے کہا گیا دیکھو، ادھر دیکھو۔ میں نے دیکھا بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے افق کو ڈھانپ رکھا ہے مجھ سے کہا گیا: یہ لوگ آپ کی امت ہیں اور ان میں سے ستر ہزار لوگ ہوں گے جو جنت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5752]
حدیث حاشیہ:
یہ ستر ہزار بڑے بڑے صحابہ اور اولیاءامت ہوں گے ورنہ امت محمدیہ تو کروڑوں اربوں گزر چکی ہے اور ہر وقت دنیا میں کروڑھا کروڑ رہتی ہے۔
ستر ہزار کا ان اربوں میں کیا شمار۔
بہر حال امت محمدی تمام امتوں سے زیادہ ہوگی اور آپ اپنی امت کی یہ کثرت دیکھ کر فخر کریں گے۔
یا اللہ! آپ کی سچی امت میں ہمارا بھی حشر فرمائیو اور آپ کا حوض کوثر پر دیدار نصیب کیجیو آمین یا رب العالمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5752   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5752  
5752. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تمام امتیں میرے سامنے پیش کی گئیں۔ بعض ایسے انبیا گزرے جن کے ساتھ صرف ایک ایک آدمی تھا اور بعض ایسے نبی بھی گزرے ہیں جن کے ساتھ دو آدمی تھے۔ کچھ انبیاء ایسے بھی تھے جن کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت تھی اور کچھ ایسے تھی تھے ان کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔ پھر میں نے ایک بڑی جماعت دیکھی جس نے افق کو ڈھانپ رکھا تھا میں نے خیال کیا شاید یہ میری امت ہے مجھے کہا گیا کہ یہ حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی امت کے لوگ ہیں پھر مجھے کہا گیا دیکھو۔ میں نے دیکھا وہاں بے شمار لوگ ہیں جن سے تمام افق بھرے پڑے تھے۔ پھر مجھ سے کہا گیا دیکھو، ادھر دیکھو۔ میں نے دیکھا بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے افق کو ڈھانپ رکھا ہے مجھ سے کہا گیا: یہ لوگ آپ کی امت ہیں اور ان میں سے ستر ہزار لوگ ہوں گے جو جنت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5752]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان میں دم نہ کرنے والوں کو فضیلت تھی جبکہ حدیث میں دم نہ کرانے والوں کا ذکر ہے، شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے سعید بن جبیر کے حوالے سے بیان کیا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ وہ ایسے لوگ ہوں گے جو نہ خود دم کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے ہی سے دم کرنے کی درخواست کرتے ہیں، نہ وہ بدشگونی لیتے ہیں بلکہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 527 (220)
یعنی حساب کے بغیر جنت میں جانے والے وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے مکمل طور پر خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیا ہو گا۔
وہ اپنی تکالیف کو دور کرنے کے لیے کسی قسم کے اسباب و ذرائع تلاش نہیں کریں گے۔
(2)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں برتری اور فضیلت حاصل ہو گی کیونکہ علاج معالجہ چھوڑ کر توکل اختیار کرنا بھی حدیث سے ثابت ہے۔
حدیث میں ہے کہ ایک عورت کو مرگی کی تکلیف تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا:
اگر تم صبر کرو تو تمہارے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں وہ تمہیں شفا عطا فرما دے گا۔
اس نے کہا:
میں اس بیماری پر صبر کرتی ہوں۔
(صحیح البخاري، المرض، حدیث: 5652)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوا اور علاج کرنا تو آپ کا یہ فعل ہمارے لیے علاج کے اسباب اختیار کرنے کے لیے جواز کی دلیل ہے۔
اس مقام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بہت عمدہ بحث کی ہے۔
(فتح الباري: 231/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5752