صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
49. بَابُ هَلْ يَسْتَخْرِجُ السِّحْرَ:
باب: جادو کا توڑ کرنا۔
وَقَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: رَجُلٌ بِهِ طِبٌّ أَوْ يُؤَخَّذُ عَنِ امْرَأَتِهِ أَيُحَلُّ عَنْهُ أَوْ يُنَشَّرُ؟، قَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا يُرِيدُونَ بِهِ الْإِصْلَاحَ، فَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَلَمْ يُنْهَ عَنْهُ.
قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہو یا اس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو۔
حدیث نمبر: 5765
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: أَوَّلُ مَنْ حَدَّثَنَا بِهِ ابْنُ جُرَيْجٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي آلُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، فَسَأَلْتُ هِشَامًا عَنْهُ، فَحَدَّثَنَا، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُحِرَ حَتَّى كَانَ يَرَى أَنَّهُ يَأْتِي النِّسَاءَ وَلَا يَأْتِيهِنَّ"، قَالَ سُفْيَانُ: وَهَذَا أَشَدُّ مَا يَكُونُ مِنَ السِّحْرِ، إِذَا كَانَ كَذَا، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ أَعَلِمْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ، أَتَانِي رَجُلَانِ فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلْآخَرِ، مَا بَالُ الرَّجُلِ؟، قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟، قَالَ: لَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ حَلِيفٌ لِيَهُودَ كَانَ مُنَافِقًا، قَالَ: وَفِيمَ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ، قَالَ: وَأَيْنَ؟ قَالَ: فِي جُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ تَحْتَ رَاعُوفَةٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ، قَالَتْ: فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبِئْرَ حَتَّى اسْتَخْرَجَهُ، فَقَالَ: هَذِهِ الْبِئْرُ الَّتِي أُرِيتُهَا، وَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ، قَالَ: فَاسْتُخْرِجَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ أَفَلَا أَيْ تَنَشَّرْتَ، فَقَالَ: أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ شَفَانِي، وَأَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ شَرًّا".
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا، کہا کہ سب سے پہلے یہ حدیث ہم سے ابن جریج نے بیان کی، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھ سے یہ حدیث آل عروہ نے عروہ سے بیان کی، اس لیے میں نے (عروہ کے بیٹے) ہشام سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ہم سے اپنے والد (عروہ) سے بیان کیا کہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا گیا تھا اور اس کا آپ پر یہ اثر ہوا تھا آپ کو خیال ہوتا کہ آپ نے ازواج مطہرات میں سے کسی کے ساتھ ہمبستری کی ہے حالانکہ آپ نے کی نہیں ہوتی۔ سفیان ثوری نے بیان کیا کہ جادو کی یہ سب سے سخت قسم ہے جب اس کا یہ اثر ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ سے جو بات میں نے پوچھی تھی اس کا جواب اس نے کب کا دے دیا ہے۔ میرے پاس دو فرشتے آئے ایک میرے سر کے پاس کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس۔ جو فرشتہ میرے سر کی طرف کھڑا تھا اس نے دوسرے سے کہا ان صاحب کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کر دیا گیا ہے۔ پوچھا کہ کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے یہ یہودیوں کے حلیف بنی زریق کا ایک شخص تھا اور منافق تھا۔ سوال کیا کہ کس چیز میں ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ کنگھے اور بال میں۔ پوچھا جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشے میں جو زروان کے کنویں کے اندر رکھے ہوئے پتھر کے نیچے دفن ہے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جادو اندر سے نکالا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا رنگین تھا اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر شیطانوں کے سروں جیسے تھے۔ بیان کیا کہ پھر وہ جادو کنویں میں سے نکالا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ نے اس جادو کا توڑ کیوں نہیں کرایا۔ فرمایا: ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی اب میں لوگوں میں ایک شور ہونا پسند نہیں کرتا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5765  
5765. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ کو یہ خیال ہوتا کہ آپ بیویوں کے پاس گئے ہیں حالانکہ آپ ان کے پاس نہیں گئے ہوتے تھے۔ (راوئ حدیث) سفیان نے کہا کہ جب ایسا ہو تو یہ سخت قسم کا جادو ہوتا ہے۔ بہرحال آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہےکہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو پوچھا تھا اللہ تعالی نے اس کا جواب دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا میرے سر کے پاس بیٹھنے والے نے دوسرے سے پوچھا: اس آدمی کو کیا شکایت ہے؟ اس نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے جو یہودیوں کے حلیف قبیلے بنو زریق میں سے ایک منافق شخص ہے اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو) کیا ہے؟ اس نے کہا: کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں۔ اس نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5765]
حدیث حاشیہ:
(1)
ذروان نامی کنویں سے جو چیزیں نکالی گئیں ان میں کنگھی اور بالوں میں ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں، ایک موم کا پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ آپ معوذتین پڑھیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی۔
سوئی نکالتے وقت آپ کو درد محسوس ہوتا۔
آخر کار تمام گرہیں کھل گئیں اور سوئیاں نکال دی گئیں اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر یوں آزاد ہو گئے گویا کوئی بندھا ہوا شخص کھل گیا ہو۔
(فتح الباري: 283/10) (2)
جادو کا توڑ کرنے کو نُشرہ کہا جاتا ہے۔
اگر وہ شرکیہ کلمات اور جادو سے ہو تو حرام ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
یہ شیطانی عمل ہے۔
(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3868)
اور اگر جادو کا علاج قرآنی آیات اور مسنون دعاؤوں سے کیا جائے تو جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت اپنا بچہ لائی جسے آسیب کی شکایت تھی اور وہ بات نہیں کرتا تھا۔
اس نے عرض کی:
اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے اور میرے گھر میں یہی بچا ہے اور اسے آسیب ہے۔
یہ گفتگو نہیں کرتا۔
آپ نے فرمایا:
میرے پاس تھوڑا سا پانی لاؤ۔
پانی لایا گیا تو آپ نے ہاتھ دھوئے اور کلی کی، پھر وہ استعمال شدہ پانی اسے دے دیا اور فرمایا:
کچھ پانی اسے پلا دو اور کچھ اس کے اوپر بہا دو، نیز اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے شفا کی دعا کرنا۔
ام جندب کہتی ہیں کہ ایک سال کے بعد میں اس عورت سے ملی تو میں نے اس سے بچے کے متعلق پوچھا۔
اس نے کہا:
وہ صحت یاب ہو گیا ہے اور ایسا عقل مند ہو گیا ہے کہ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں۔
(سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3532)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5765