صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ} :
باب: اللہ پاک کا سورۃ الاعراف میں فرمان ”اے رسول! کہہ دو کہ کس نے وہ زیب و زینت کی چیزیں حرام کیں ہیں جو اس نے بندوں کے لیے (زمین سے) پیدا کی ہیں (یعنی عمدہ عمدہ لباس)“۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَالْبَسُوا، وَتَصَدَّقُوا فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا مَخِيلَةٍ"، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كُلْ مَا شِئْتَ، وَالْبَسْ مَا شِئْتَ، مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ سَرَفٌ أَوْ مَخِيلَةٌ.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھاؤ اور پیو اور پہنو اور خیرات کرو لیکن اسراف نہ کرو اور نہ تکبر کرو۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جو تیرا جی چاہے (بشرطیکہ حلال ہو) کھاؤ اور جو تیرا جی چاہے (مباح کپڑوں میں سے) پہن مگر دو باتوں سے ضرور بچو اسراف اور تکبر سے۔
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1251  
´کھانے پینے اور پہننے میں فضول خرچی اور تکبر جائز نہیں`
«وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏كل واشرب والبس وتصدق فى غير سرف ولا مخيلة. اخرجه ابو داود واحمد وعلقه البخاري.»
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (عبد اللہ بن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھا، پی، پہن اور صدقہ کر جس میں فضول خرچی نہ ہو اور تکبر نہ ہو۔ اسے ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے اور بخاری نے اسے تعلیقًا (دانستہ سند حذف کر کے) روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1251]
تخریج:
[بخاري تعليقًا اللباس باب Q5783]،
[احمد 181/2، 182]،
[ابو داود؟]

مفردات:
«سَرَفٌ» اور «إِسْرَافٌ» کسی بھی قول یا فعل میں حد سے گزرنا، خرچ میں حد سے تجاوز کرنے میں یہ لفظ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے مقتول کے وارثوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: «فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ» قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے اور فرمایا: «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا» کھاؤ پیو اور حد سے نہ بڑھو۔ [فتح]
«مخيلةٌ» مصدر میمی ہے بروزن «مفعلة خيلاء» کا ہم معنی ہے یعنی تکبر۔ آدمی جب اپنے آپ میں کسی خوبی کا خیال جما لیتا ہے تو یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ تخیل نفس میں کسی چیز کے خیال کی نقش بندی کو کہتے ہیں۔ [راغب]

فوائد:
➊ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے دنیا کی ہر طیب چیز حلال فرما دی ہے کھانے کی ہو یا پینے کی ہو یا رہنے کی یا کوئی سواری ہو۔ صرف وہ چیزیں حرام فرمائیں جو خبیث ہیں اور انسان کے جسم یا عقل یا مال یا عزت یا دین کے لیے نقصان دہ ہیں کیونکہ یہ پانچوں چیزیں انسان کی عزیز ترین چیزیں ہیں اور ان کی حفاظت ضروری ہے۔
«وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ» [7-الأعراف:157]
وہ پاکیزہ چیزیں ان کے لئے حلال کرتا ہے اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتا ہے۔
➋ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا کی ہر مباح چیز انسان استعمال کر سکتا ہے اور جتنی چاہے استعمال کر سکتا ہے یہ نہیں کہ فلاں تو کر سکتا ہے اور فلاں نہیں اور اتنی کر سکتا ہے اور اتنی نہیں:
«هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا» [2-البقرة:29]
وہی ذات ہے جس نے دنیا کی سب چیزیں تمہارے لیے بنائیں۔
«قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ» [7-الأعراف:32]
تو کہہ جس زینت کو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا اس کو اور پاکیزہ رزق کو کس نے حرام کیا ہے۔
➌ یہ حلال چیزیں اس وقت ناجائز ہوں گی جب وہ ضرورت کی حد سے تجاوز کر جائیں مثلاً اتنا کھانا یا پینا جو جسم کے لئے وبال بن جائے اور صحت کو نقصان پہنچائے یا کھانے پینے یا صدقہ کرنے میں اتنا خرچ کر دینا جو استطاعت سے زیادہ ہو پھر زیربار ہو کر پریشان رہنا یا کھانے پینے، پہننے یا صدقہ کرنے میں نمود و نمائش اور لوگوں سے اونچا ہونے کا مقصد دل میں رکھنا ان سب چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا:
➍ کھانے پینے کی حد جس سے گزرنا نہیں چاہئیے ترمذی کی ایک حدیث میں بیان ہوئی ہے مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ما ملا آدمي وعاء شرا من بطن بحسب ابن آدم اكلات يقمن صلبه فإن كان لا محالة فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث لنفسه»
کسی آدمی نے کوئی برتن نہیں بھرا جو پیٹ سے زیادہ برا ہو ابن آدم کے لئے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں پس اگر اسے (زیادہ کھائے بغیر) کوئی چارہ ہی نہ ہو تو تیسرا حصہ کھانے کے لئے ہے اور تیسرا پینے کے لئے اور تیسرا سانس کے لیے۔ [ترمذي/الزهد 47 حديث صحيح ديكهيے صحيح الترمذي 1939]
اگر زیادہ دیر کا بھوکا پیاسا ہو تو زیادہ بھی کھا پی سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو سخت بھوک کے بعد بار بار دودھ پینے کے لیے کہا یہاں تک کہ انہوں نے کہا «لا والذي بعثك بالحق ما اجد له مسلكا» اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس کے داخل ہونے کے لئے (پیٹ میں) کوئی جگہ نہیں پاتا۔ [صحيح بخاري 6452]
➎ لباس میں حد سے گزرنا یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو یا ریشم کا ہو یا عورتوں کے مشابہ ہو یا اس میں کفار سے مشابہت ہو۔
➏ صدقے میں اسراف کی وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتی ہے:
«وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا» [17-الإسراء:29]
اور نہ اپنے ہاتھ کو گردن کی طرف طوق سے بندھا ہوا بنا لو اور نہ اسے پورا ہی کھول دو ورنہ اس حال میں بیٹھ رہو گے کہ ملامت کئے ہوئے تھک کر رہ جانے والے ہو گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں صدقہ کے علاوہ کھانے پینے، پہننے اور دوسرے کاموں میں خرچ کی وہ حد بیان کی گئی ہے جس سے آدمی بڑھتا ہے تو اسراف میں داخل ہو جاتا ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 61   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1251  
´ادب کا بیان`
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھا، پی اور لباس پہن اور صدقہ کر لیکن اسراف اور فخر کے بغیر۔ اس کو ابوداؤد اور احمد نے روایت کیا ہے اور بخاری نے اسے معلق بیان کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1251»
تخریج:
«أخرجه أحمد:2 /181، 182 «والترمذي الأدب، حديث:2819 بلفظ آخر وحديثه صحيح»، والنسائي، الزكاة، حديث:2560، وابن ماجه، اللباس، حديث:3605، والبخاري تعليقًا، اللباس، قبل حديث:5783، قتادة مدلس عنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے‘ نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں اسے تعلیقاً بیان کیا ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۱ /۲۹۴‘ ۲۹۵‘ وھدایۃ الرواۃ:۴ /۲۱۷‘ ۲۱۸) 2. اس حدیث میں اسراف اور تکبر سے منع کیا گیا ہے‘ خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو‘ لباس سے ہو یا صدقہ و خیرات سے۔
یہ دونوں بہر آئینہ ناجائز ہیں کیونکہ کسی بھی چیز میں اسراف‘ جسم وجان اور معیشت کے لیے ضرر رساں ہوتا ہے اور انسان کو ہلاکت کے دہانے پر پہنچا دیتا ہے اور اس سے انسان کا نفس برباد ہو جاتا ہے۔
اور تکبر بھی انسان میں چونکہ خود پسندی اور اتراہٹ پیدا کرتا ہے‘ اس لیے یہ بھی دنیا و آخرت میں نقصان دہ ہے۔
آخرت کے اعتبار سے تو اس طرح کہ انسان کبیرہ گناہ کا مرتکب ٹھہرتا ہے اور دنیا میں اس طرح کہ ایسا انسان لوگوں کی نظروں میں مبغوض اور حقیر بن کر رہ جاتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1251   
حدیث نمبر: 5783
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ يخبرونه، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے، انہوں نے نافع اور عبداللہ بن دینار اور زید بن اسلم سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت نہیں کرے گا جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 417  
´مخلوق کے لئے تکبر کرنا حرام ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر ثوبه بطرا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ قیامت کے دن اس شخص کو (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا جو اپنا کپڑا تکبر سے گھسیٹ کے چلتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 417]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5783، 5791، ومسلم 42/2085، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مخلوق کے لئے تکبر کرنا حرام ہے۔
➋ تکبر سے کپڑا گھسیٹ کر چلنا حرام ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 165   
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1249  
´ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا`
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلا . متفق عليه»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف دیکھے گا نہیں جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1249]
تخریج:
[بخاري: 5791، 5783]،
[مسلم: اللباس 5461]،
[بلوغ المرام: 1249]،
[تحفة الاشراف 466/5، 347/5، 215/6]

مفردات:
«الخيلاء» تکبر یہ مصدر ہے۔ گھوڑوں کو «خيل» اس لئے کہتے ہیں کہ ان کی چال میں تکبر پایا جاتا ہے۔ [قاموس]

فوائد:
دیکھے گا نہیں
کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ کیونکہ اللہ کی نظر سے کوئی چیز غائب تو ہو ہی نہیں سکتی وجہ یہ ہے کہ متواضع مسکین مہربانی کی نظر کا حق دار ہوتا ہے متکبر و مغرور اس سے محروم ہو جا تا ہے بلکہ قہر کی نظر کا حقدار بن جاتا ہے۔ فرمان الہی ہے:
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا» [4-النساء: 36]
یقیناًً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے شیخی خور کو پسند نہیں فرماتا۔
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم المسبل والمنان والمنفق سلعته بالحلف الكاذب» [مسلم 71/1]
تین آدمی ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے عذاب الیم ہے (کپڑا) لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سامان بیچنے والا۔
➋ کپڑا لٹکانے پر یہ وعید عورتوں اور مردوں سب کے لئے ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث سے یہی بات سمجھی چنانچہ ترمذی اور نسائی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں ساتھ ہی یہ الفاظ ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک بالشت لٹکا لیا کریں۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ایک ہاتھ لٹکا لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔ [سنن ترمذي اللباس]
اس سے معلوم ہوا کہ جو عورتیں کئی گز کپڑا اپنے پیچھے کھینچتے ہوئے چلتی ہیں، خصوصا شادی کے موقعہ پر وہ بھی اس وعید میں شامل ہیں۔ یورپی اقوام میں اور ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں کی عورتوں میں بھی یہ رسم بد چل پڑی ہے کہ وہ شادی کے موقعہ پر کئی گز لمبا غرارہ پہنتی ہیں جو پیچھے گھسٹتا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے کئی عورتوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ چلتی جاتی ہیں۔ نمود و نمائش اور کبر و نخوت کی ماری ہوئی یہ عورتیں بھی اللہ کی نگاہ لطف سے محروم ہیں۔ عورت مردوں کی طرح اپنے ٹخنے ننگے نہ رکھے بلکہ پاؤں کو چھپائے مگر ایک ہاتھ (دو بالشت) سے زیادہ کپڑا نہ لٹکائے بہتر یہ ہے کہ ایک بالشت ہی لٹکائے۔
جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا۔
اس سے معلوم ہوا کہ تکبر کے بغیر کسی کا کپڑا نیچے چلا جائے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میری چادر کا ایک کنارہ لٹک جاتا ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خاص خیال رکھوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إنك لست ممن يصنعه خيلاء» تم ان لوگوں سے نہیں ہو جو یہ کام تکبر سے کرتے ہیں۔ [بخاري 5784]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: «إلا أن أتعاهد ذلك منه» سوائے اس کے کہ میں اس کا خیال رکھوں۔ یعنی جب میں اس سے غافل ہو جاؤں تو وہ نیچے چلی جاتی ہے۔ احمد کے ہاں معمر عن زید بن اسلم کی روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا: «إن إزارى يسترخى أحيانا»، میری چادر کبھی کبھی نیچے ڈھلک جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چلنے یا ہلنے جلنے سے ان کے اختیار کے بغیر چادر کی گرہ کھل جاتی تھی جب خاص خیال رکھتے تو نہیں ڈھلکتی تھی کیونکہ جب بھی ڈھلکنے لگتی اسے کس لیتے تھے۔ ابن سعد نے طلحہ بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر عن عائشہ کے طریق سے روایت کیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: «كان أبوبكر أحنى لا يستمسك إزاره یسترخى عن حقويه» ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قد جھکا ہوا تھا اپنی چادر تھام نہیں سکتے تھے وہ ان کے کولہوں سے ڈھلک جاتی تھی۔ [فتح الباري 266/10]
اب صاف ظاہر ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جان بوجھ کر چادر نیچے نہیں لٹکا تے تھے کبھی کبھی بے توجھی ہو جاتی تو نیچے ڈھلک جاتی تھی۔ اس طرح اگر کسی کی چادر ڈھلک جائے تو نہ یہ تکبر ہے نہ اس پر مواخذہ ہے۔
➍ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کپڑا لٹکائے اور کہے کہ میں نے تکبر سے نہیں لٹکایا تو اس کی یہ بات درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی چادر کا مقام پنڈلی کا عضلہ (موٹا حصہ) مقرر فرمایا اس کے بعد پنڈلی کا نصف مقرر فرمایا زیادہ سے زیادہ ٹخنے کے اوپر تک رکھنے کی اجازت دی اور اس سے نیچے لٹکانا منع فرمایا بطور دلیل چند احادیث درج کی جاتی ہیں۔
«عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار» [صحيح بخاري]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چادر کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہے وہ آگ میں ہے۔
«عن حذيفة قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بعضلة ساقي او ساقه فقال: هذا موضع الإزار فإن ابيت فاسفل فإن ابيت فلا حق للإزار فى الكعبين . قال ابوعيسى: هذا حديث حسن صحيح» [ترمذي اللباس 1783]
حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی یا اپنی پنڈلی کا عضلہ (موٹا حصہ) پکڑ کر فرمایا: چادر کی جگہ یہ ہے اگر نہ مانو تو اس سے کچھ نیچے اگر یہ بھی نہ مانو تو چادر کا ٹخنوں میں کوئی حق نہیں۔ ابوعیسیٰ (ترمذی) نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
علاوہ ازیں یہ حدیث احمد، نسائی، ابن ماجہ میں بھی ہے اور دیکھئے صحیح الترمذی 1457
ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام نے فرمایا:
«إزرة المؤمن إلى نصف الساق ولا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين ما كان أسفل من الكعبين فهو فى النار من جر إزاره بطرا لم ينظر الله إليه» [صحيح - مالك، أحمد، أبوداود، ابن ماجه، ابن حبان، بيهقي، صحيح الجامع 921]
مومن کے چادر باندھنے کی حالت نصف پنڈلی تک ہے اور اس کے اور ٹخنوں کے درمیان اس پر کوئی گناہ نہیں۔ جو ٹخنوں سے نیچے ہو وہ آگ میں ہے جو شخص تکبر سے اپنی چادر لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھے گا نہیں۔
➎ جان بوجھ کر چادر لٹکانا تکبر میں شامل ہے خواہ ایسا کرنے والا یہ کہے کہ میں نے اسے تکبر سے نہیں لٹکایا۔ جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور کئی باتوں کے علاوہ ان سے فرمایا:
«وارفع إزارك إلى نصف الساق فإن ابيت فإلى الكعبين وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة وإن الله لا يحب المخيلة» [أبوداود 4084، نسائي، حاكم، صحيح أبى داود 3442]
اور اپنی چادر نصف پنڈلی تک اونچی رکھو اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور چادر لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ یہ تکبر سے ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو یقیناًً پسند نہیں فرماتا۔ اور دیکھیے [صحيح ابي داود 3442]
➏ اگر کوئی شخص اپنی پنڈلیاں ٹیڑھی یا باریک ہونے کی وجہ سے چادر لٹکائے تو یہ بھی ناجائز ہے۔
«عن الشريد رضى الله عنه قال: أبصر رسول الله رجلا يجر إزاره فأسرع إليه أو هرول فقال: إرفع إزارك واتق الله، قال: إني أحنف تصطك ركبتاي . فقال: ارفع إزارك كل خلق الله حسن، فما رؤي ذلك الرجل بعد إلا إزاره يصيب أنصاف ساقيه .» [مسند أحمد 390/4]
شرید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنی چادر کھینچتا ہوا جا رہا تھا آپ اس کی طرف جلدی سے گئے یا دوڑ کر گئے اور فرمایا اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس نے کہا: میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں میرے گھٹنے آپس میں رگڑ کھاتے ہیں، آپ نے فرمایا اپنی چادر اوپر اٹھاؤ کیونکہ اللہ عزوجل کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ہی خوبصورت ہے تو اس کے بعد اس آدمی کو جب بھی دیکھا گیا، اس کی چادر نصف پنڈلی پر ہوتی تھی۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی بخاری اور مسلم کے راوی ہیں۔ [سلسلة الأحاديث الصحيحة 1441]
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اس صحابی کا چادر لٹکانا تکبر کی وجہ سے نہیں تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں تکبر پائے جانے کا گمان ہو سکتا تھا۔
«عن عمرو بن فلان الأنصاري قال بينا هو يمشي قد أسبل إزاره إذ لحقه رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أخذ بناصية نفسه وهو يقول: اللهم عبدك، ابن عبدك، ابن أمتك قال عمرو: قلت: يا رسول الله! إني رجل حمش الساقين فقال: يا عمرو! إن الله عز وجل قد أحسن كل شيء خلقه يا عمرو! وضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بأربع أصابع من كفه اليمنى تحت ركبة عمرو فقال: يا عمرو! هذا موضع الإزار ثم رفعها ثم وضعها تحت الثانية فقال: يا عمرو! هذا موضع الإزار» [مسند أحمد 200/4]
عمرو بن فلان الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ اپنی چادر لٹکائے ہوئے چل رہے تھے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر ملے آپ نے اپنی پیشانی کے بال پکڑے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے، اے اللہ! تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری بندی کا بیٹا ہوں (لٹکی ہوئی چادر سے ظاہر ہونے والے تکبر کی طرف توجہ دلانے کے لئے اپنی عاجزی کا اظہار فرما رہے تھے) عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (یہ سن کر میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں پتلی پنڈلیوں والا آدمی ہوں (اس لئے چادر اٹھا رکھی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! یقیناًً اللہ عزوجل نے جو چیز پیدا کی ہے خوبصورت پیدا کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں ہتھیلی کی چار انگلیاں عمرو کے گھٹنے کے نیچے رکھ کر فرمایا: اے عمرو! یہ چادر کی جگہ ہے پھر انگلیاں اٹھا کر دوبارہ اس سے نیچے رکھ کر فرمایا: اے عمرو! یہ چادر کی جگہ ہے، پھر انگلیاں اٹھا کر دوبارہ اس سے نیچے رکھیں اور فرمایا اے عمرو! یہ چادر کی جگہ ہے۔
یہ حدیث طبرانی نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے عمرو بن زرارہ کا یہ واقعہ اپنا چشم دید بیان کیا ہے۔ مسند احمد کی روایت جو اوپر بیان ہوئی ہے اس میں عمرو نے خود اپنا واقعہ بیان کیا ہے مگر اس میں عمرو بن فلاں بیان ہوا ہے یہ وہی عمرو بن زرارہ ہیں اور طبرانی نے خود عمرو بن زرارہ سے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں۔ [فتح 275/10]
➐ جو شخص جان بوجھ کر چادر یا شلوار ضرورت سے بڑی سلواتا ہے اور اسے ٹخنوں سے نیچے رکھتا ہے تکبیر کے علاوہ اس کے ناجائز ہونے کی چند اور وجھیں بھی ہیں۔
پہلی وجہ:
اسراف (فضول خرچی) ہے جو کہ حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
«وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ» [7-الأعراف:31]
اور فضول خرچی نہ کرو وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ «وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ٭ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا» [17-الإسراء:26]
اور فضول خرچی نہ کرو بلاشبہ فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
دوسری وجہ:
عورتوں سے مشابہت ہے جو اس میں اسراف سے بھی زیادہ نمایاں ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں:
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن المرأة تلبس لبسة الرجل والرجل يلبس لبسة المرأة»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کی طرح کا لباس پہنے اور اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورت کا لباس پہنے۔ [حاكم 194/4]
حاکم نے فرمایا یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ عورت اگر اپنے ٹخنے ننگے رکھے تو مرد سے مشابہت ہے اور مرد اپنے ٹخنے ڈھانک کر رکھے تو عورت سے مشابہت ہے۔
تیسری وجہ:
یہ ہے کہ چادر لٹکانے والے کی چادر کے ساتھ کوئی نہ کوئی نجاست لگنے کا اندیشہ رہتا ہے جب کہ اللہ تعلق کا حکم ہے «وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ» [74-المدثر:4] اپنے کپڑے پاک رکھ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چادر لٹکانے سے منع فرماتے ہوئے ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی۔
صحیح بخاری میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا مفصل واقعہ مذکور ہے عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ جب امیر المؤمنین کو پیٹ میں خنجر مارا گیا تو انہیں اٹھا کر گھر لایا گیا ہم بھی ساتھ گئے نبیذ بنائی گئی انہوں نے پی تو پیٹ سے نکل گئی پھر دودھ لایا گیا آپ نے پیا تو زخم سے نکل گیا۔ لوگوں کو یقین ہو گیا۔ کہ آپ فوت ہو جائیں گے۔ اب ہم ان کے پاس داخل ہوئے اور لوگ بھی آنے لگے اور ان کی تعریف کرنے لگے ایک نوجوان آیا اس نے کہا: امیر المؤمنین اللہ کی طرف سے خوش خبری کے ساتھ خوش ہو جائیے۔ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اسلام میں پیش قدی کی جو نعمت حاصل ہوئی آپ کو معلوم ہی ہے، پھر آپ حاکم بنے تو عدل کیا پھر شہادت نصیب ہوئی۔ فرمانے لگے میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ یہ سب کچھ برابر برابر رہ جائے نہ مجھ پر (بوجھ) ہو نہ میرے لئے (کچھ) ہو۔ جب وہ واپس جانے لگا تو اس کی چادر زمین پر لگ رہی تھی فرمایا اس نوجوان کو میرے پاس واپس لاؤ فرمایا:
«يا ابن أخي إرفع ثوبك فانه انقي لثوبك واتقي لربك»
بھتیجے اپنا کپڑا اوپر اٹھا لو کیونکہ یہ تمہارے کپڑے کو زیادہ صاف رکھنے کا باعث ہے اور تمہارے پروردگار سے زیادہ ڈرنے کا باعث ہے۔ [بخاري 3700]
یہاں ان بھائیوں کو غور کرنا چاہئیے جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کو معمولی خیال کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے اتنی تکلیف کی حالت میں بھی کپڑا لٹکانے سے منع فرمانے کو ضروری سمجھا ہے۔
➑ زیر بحث حدیث میں مذکور لفظ «من جر ثوبه إلخ» سے صاف ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چادر لٹکانے سے ہی منع نہیں فرمایا بلکہ چادر شلوار قمیص کوئی بھی کپڑا ہو اسے لٹکانا منع ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 52   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3569  
´فخر و غرور سے ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے کپڑے فخر و غرور سے گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3569]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کپڑا گھسیٹنے کا مطلب یہ ہے کہ کپڑا اتنا لمبا ہو کہ زمیں پر گھسیٹا ہو یا زمین سے چھوتا ہو۔

(2)
تہبند، شلوار، پتلون، پاجامہ، عربی قمیض جو پاؤں تک ہوتی ہے ان سب میں مرد کے لئے جائز حد یہ ہے کہ کپڑا ٹخنوں سے اوپر رہے۔
اور افضل یہ ہے کہ آدھی پنڈلی تک رہے۔

(3)
جائز حد سے نیچے کپڑا لٹکانا کبیرا گناہ ہے۔

(4)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کپڑا تکبر کی نیت سے نہیں لٹکاتے ان کا یہ عذر درست نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ﷺہے:
تہبند لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ وہ تکبر ہے اور اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں۔ (سنن أبي داؤد، اللباس، باب ماجاء في اسبال الإزار، حديث: 4084)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3569   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1249  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت سے نہ دیکھے گا جو تکبر سے اپنا کپڑا (پاؤں کے) نیچے گھسیٹتا پھرے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1249»
تخریج:
«أخرجه البخاري، اللباس، باب قول الله تعالي: "قل من حرم..."، حديث:5783، ومسلم، اللباس، باب تحريم جر الثوب خيلاء...، حديث:2085.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردوں کے لیے چادر‘ شلوار اور پینٹ وغیرہ کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام ہے کیونکہ یہ متکبرین کی علامت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1249   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1730  
´تہ بند گھسیٹنے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جس نے تکبر سے اپنا تہ بند گھیسٹا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1730]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
گویا تکبر کیے بغیر غیر ارادی طورپر تہ بند کا نیچے لٹک جانا اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
لیکن ارادۃ وقصداً نیچے رکھنا اور حدیث میں جو سزا بیان ہوئی ہے اسے معمولی جاننا یہ بڑا جرم ہے،
کیوں کہ کپڑا گھسیٹ کرچلنا یہ تکبر کی ایک علامت ہے،
جو لباس کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1730   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4085  
´تہ بند (لنگی) کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی غرور اور تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا تو اللہ اسے قیامت کے دن نہیں دیکھے گا یہ سنا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے تہبند کا ایک کنارہ لٹکتا رہتا ہے جب کہ میں اس کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نہیں ہو جو غرور سے یہ کام کیا کرتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4085]
فوائد ومسائل:
1: بیٹھے بیٹھے یا کام کاج میں تہ بند یا شلوار وغیر ہ کا ڈھیلا ہو جانا اور ٹخنوں سے نیچے چلے جانا اس تکبر میں شمار نہیں جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں ہوا۔

2: صحابہ کرام تعلیمات نبویہ کی روشنی میں انتہائی حساس تھے کہ کسی بھی وقت ان سے کوئی مخالفت نہ ہونے پائے اسی وجہ سے حٖت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے وضاحت چاہی تھی، اس سے انہیں اور دیگر مسلمانوں کے لئے راحت ہو گئی اور شدت نہ رہی، مگر آخری جملے کو اپنے لئے دلیل سمجھ لینا کسی طرح جائز نہیں، جیسا کہ اوپر وضاحت گزری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4085   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5783  
5783. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نطر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو تکبر کرتے ہوئے اپنے کپڑے کو زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5783]
حدیث حاشیہ:
لباس کا اسراف یہ ہے کہ بے فائدہ کپڑا خراب کرے ایک ایک تھان کے عمامے باندھے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ کپڑا لٹکانے میں تکبر اور غرور کو بڑا دخل ہے یہ بہت ہی بری عادت ہے تکبر اور غرور کے ساتھ کتنی ہی نیکی ہو لیکن آدمی نجات نہیں پا سکے گا اور عاجزی اور فروتنی کے ساتھ کتنے بھی گناہ ہوں لیکن مغفرت کی امید ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5783   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5783  
5783. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نطر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو تکبر کرتے ہوئے اپنے کپڑے کو زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5783]
حدیث حاشیہ:
(1)
کپڑا گھسیٹ کر چلنا انتہائی معیوب ہے۔
اس میں چادر، قمیص، شلوار، جبہ، کوٹ اور پگڑی وغیرہ شامل ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
حد سے زیادہ کپڑا لٹکانا تہ بند، قمیص اور پگڑی تمام میں ممنوع ہے۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4094)
یہ اسراف ہے اور تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا:
ٹخنوں سے نیچے چادر لٹکانے سے بچنا کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4084)
البتہ عورتوں کو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی اجازت ہے۔
(2)
گویا اس انداز میں نسوانیت کا پہلو بھی ہے جو مردوں کو زیب نہیں دیتا۔
مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے لباس میں مردانہ صفات کا اظہار کریں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ تہ بند اور شلوار وغیرہ ٹخنوں سے اونچی ہو۔
اس کی مزید وضاحت آئندہ ہو گی۔
بہرحال مسلمانوں کو اپنے لباس میں اسراف اور تکبر سے بچنا چاہیے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5783