صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
6. بَابُ الإِزَارِ الْمُهَدَّبِ:
باب: حاشیہ دار تہمد پہننا۔
وَيُذْكَرُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَأَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَحَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ، وَمُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُمْ لَبِسُوا ثِيَابًا مُهَدَّبَةً.
‏‏‏‏ اور زہری، ابوبکر بن محمد، حمزہ بن ابی اسید اور معاویہ بن عبداللہ بن جعفر سے منقول ہے کہ ان بزرگوں نے جھالر دار کپڑے پہنے ہیں۔
حدیث نمبر: 5792
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جَالِسَةٌ، وَعِنْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ تَحْتَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي، فَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا مَعَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ هَذِهِ الْهُدْبَةِ، وَأَخَذَتْ هُدْبَةً مِنْ جِلْبابهَا فَسَمِعَ خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ قَوْلَهَا وَهُوَ بِالْباب، لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، قَالَتْ: فَقَالَ خَالِدٌ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا تَنْهَى هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا وَاللَّهِ مَا يَزِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى التَّبَسُّمِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، فَصَارَ سُنَّةً بَعْدُ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ میں بھی بیٹھی ہوئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں رفاعہ کے نکاح میں تھی لیکن انہوں نے مجھے تین طلاق دے دی ہیں۔ (مغلظہ)۔ اس کے بعد میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا اور اللہ کی قسم کہ ان کے ساتھ یا رسول اللہ! صرف اس جھالر جیسا ہے۔ انہوں نے اپنی چادر کے جھالر کو اپنے ہاتھ میں لے کر اشارہ کیا۔ خالد بن سعید رضی اللہ عنہ جو دروازے پر کھڑے تھے اور انہیں ابھی اندر آنے کی اجازت نہیں ہوئی تھی، اس نے بھی ان کی بات سنی۔ بیان کیا کہ خالد رضی اللہ عنہ (وہیں سے) بولے۔ ابوبکر! آپ اس عورت کو روکتے نہیں کہ کس طرح کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھول کر بیان کرتی ہے لیکن اللہ کی قسم اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تبسم اور بڑھ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ غالباً تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ لیکن ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ (تمہارے دوسرے شوہر عبدالرحمٰن بن زبیر) تمہارا مزا نہ چکھ لیں اور تم ان کا مزا نہ چکھ لو پھر بعد میں یہی قانون بن گیا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2639  
´جو اپنے تئیں چھپا کر گواہ بنا ہو اس کی گواہی درست ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ الْقُرَظِيِّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي، فَأَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَقَالَ: أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لَا حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ: أَلَا تَسْمَعُ إِلَى هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی۔ پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی۔ لیکن ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کر سکتی جب تک تو عبدالرحمٰن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ دروازے پر اپنے لیے (اندر آنے کی) اجازت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ابوبکر! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ: 2639]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2639 کا باب: «بَابُ شَهَادَةِ الْمُخْتَبِي:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں اپنے تئیں چھپ کر گواہ بنانے کو جائز قرار دیا ہے اور حدیث جو نقل فرمائی ہے اس میں ترجمۃ الباب سے موافقت موجود ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والغرض منه إنكار خالد بن سعيد على أمرأة رفاعة ما كانت تكلم به عند النبى صلى الله عليه وسلم مع كونه محجوبًا عنها خارج الباب، ولم ينكر النبى صلى الله عليه وسلم عليه ذالك» [فتح الباري، ج 6، ص: 212]
یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ دروازے کے باہر تھے، عورت کے سامنے نہ تھے باوجود اس کے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے ایک قول کی نسبت اس عورت کی طرف کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے اپنے تئیں چھپ کر گواہی دینے پر) کوئی اعتراض نہیں کیا۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے قول میں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی گفتگو کے بارے میں انکار فرمایا کہ وہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر رہی ہے، اور اس شہادت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں روکا، اور سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا انکار ان کی آواز کی وجہ سے تھا جو انہیں سنائی دے رہی تھی۔ لہٰذا سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے تئیں گواہی چھپا کر دی اس عورت کی۔ [عمدة القاري، ج 13، ص: 693]

علامہ عبدالحق الہاشمی الہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے مناسبت کی غرض یوں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے انکار فرمایا تھا اس خاتون کا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کر رہی تھیں اور اس وقت سیدنا خالد رضی اللہ عنہ دروازے کے پیچھے تھے (ان کی اس گواہی پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں کیا، پس سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی آواز پر اعتماد کیا یہاں تک کہ اس کے (اس فعل سے) انکار کیا۔ [لب اللباب فى تراجم والأبواب، ج 3، ص: 344]

بعض حضرات نے «شهادة المختبئ» کا انکار کیا ہے۔
ابن الملقن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فاختلف العلماء فى شهادة المختبئ، فروي عن شريح والشعبي [عبدالرزاق: 355/8، و ابن أبى شيبة: 432/4]
والنخعي أنهم كانوا لا يجيزونها وقالوا انه ليس بعدل حين اختبأ ممن يشهد عليه وهو قول أبى حنيفة والشافعي.»
[معرفة السنن والاثار: 345/14]
یعنی علماء نے «مختبئ» کی شہادت پر اختلاف کیا ہے، پس شریح، الشعبی اور نخعی سے «مختبئ» کی شہادت کا انکار موجود ہے۔

امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ [مختصر الطحاوي، ص: 336]

امام مالک رحمہ اللہ «شهادة المختبئ» کے بارے میں فرماتے ہیں:
جب آدمی عورت پر گواہی دے پردے کے پیچھے اور وہ اس عورت کو جانتا بھی ہو اور اس کی آواز پہچانتا بھی ہو تو (اس صورت میں) اس کی گواہی جائز ہو گی۔

اور مزید آپ فرماتے ہیں:
یقینا لوگ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے پاس جایا کرتے تھے (دینی مسائل کے دریافت کے لیے) اور ان حضرات اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے درمیان پردہ حائل ہوا کرتا تھا۔ پس وہ حضرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے سنا کرتے اور ان سے احادیث بیان کیا کرتے تھے۔ [النادر والذيادات، ج 8، ص: 258]
لہذا اس دلیل سے «مختبئ» کی شہادت کی قبولیت کی واضح دلیل فراہم ہوتی ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب:
کتب احادیث میں تین قسم کے واقعات اسی نوعیت کے ملتے ہیں جن کی وجہ سے کئی حضرات نے ان واقعات کو ایک ہی شمار کیا ہے، جو کہ غلط ہے۔
ایک واقعہ جو مذکورہ حدیث میں موجود ہے، دوسرا واقعہ بعین اسی نوعیت کا مفسرین نے ذکر فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت: « ﴿فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ » [البقرة: 230] کے نزول میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ آیت عائشہ بنت عبد الرحمن بن عتیک کے متعلق نازل ہوئی۔ وہ اپنے چچا زاد رفاعہ بن وہب کے نکاح میں تھیں، رفاعہ بن وہب نے انہیں تین طلاقیں دیں تو انہوں نے عبدالرحمن بن زبیر سے شادی کی، عبدالرحمن نے انہیں طلاق دی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں کہ عبدالرحمن نے مجھے جماع کے بغیر ہی طلاق دے دی۔ اب کیا میں پہلے شوہر کے پاس جا سکتی ہوں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ [الدر المنثور: 1283/1 - فتح الباري، ج 9، ص: 581]
بعض حضرات نے ان دو واقعات کو ایک ہی شمار کیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فالواضح من سياقه انها قصة أخرى وان كلا من رفاعة القرظي ورفاعة النضري وقع له من زوجة له طلاق فتزوج كلا منهما عبدالرحمن بن الزبير فطلقها قبل ان يمسها فالحكم فى قصتهما متحد مع تغاير الأشخاص.» [فتح الباري، ج 9، ص: 581]
سیاق سے واضح یہ ہے کہ مذکورہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔ کیونکہ پہلا واقعہ رفاعہ بن سموال کی بیوی کا ہے، اور دوسرا واقعہ رفاعہ بن وہب کا ہے، اور دونوں عورتوں نے دوسری شادی عبدالرحمن بن زبیر سے کی۔
حافظ صاحب کے اقتباسات سے واضح ہوا کہ مذکورہ دونوں واقعات مختلف ہیں مگر ان میں اشتراک اس بات کا ہے کہ دونوں خاتوں نے نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے کیا تھا۔
تیسرا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے جسے امام نسائی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ:
ایک عورت جس کا نام غمیصاء یا رمیصاء تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اپنے شوہر کی شکایت کرنے کہ وہ جماع پر قادر نہیں ہے، تو اس کے شوہر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے۔ دراصل یہ اپنے پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ليس ذالك لها حتى تذوق عسيلته» [الدر المنثور: 284/1]
گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں واقعات الگ الگ ہیں جن کا ذکر مختلف کتب احادیث و تفاسیر میں کیا گیا ہے۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 378   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1932  
´ایک آدمی نے اپنی عورت کو تین طلاق دی، اس نے دوسرے سے شادی کر لی پھر دوسرے شوہر نے جماع سے پہلے اسے طلاق دیدی تو کیا اب وہ پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی (رضی اللہ عنہا) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں رفاعہ کے پاس تھی، انہوں نے مجھے تین طلاق دے دی، تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، اور ان کے پاس جو ہے وہ ایسا ہے جیسے کپڑے کا جھالر ۱؎ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، اور فرمایا: کیا تم پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم عبدالرحمٰن کا مزہ نہ چکھو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1932]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد کو حق حاصل ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے لیکن یہ حق طلاق محدود ہے، یعنی پوری زندگی میں اسے صرف تین مرتبہ طلاق دینے کا حق ہے۔
پہلی اور دوسری طلاق کے بعد اسے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ (البقرة: 229)
(رجعی)
طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو اچھائی سے روک لینا ہے یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے۔

(2)
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا بلکہ عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے۔

(3)
اگر کسی وجہ سے دوسرے مرد سے نباہ نہ ہو سکے اور طلاق ہو جائے یا وہ فوت ہو جائے تو پھر عورت اگر چاہے تو پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پہلے خاوند سےنکاح کیا جائے بلکہ کسی تیسرے آدمی سے بھی نکاح کیا جا سکتا ہے۔

(4)
پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ دوسرے خاوند نے مقاربت کے بعد طلاق دی ہو۔
اگر دوسرے نے مقاربت سے پہلے طلاق دی ہو تو پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا۔
کسی تیسرے آدمی سے جائز ہو گا۔

(5)
طلاق بتہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔
اگر عورت سےنکاح کر کے خلوت سے پہلے طلاق دے دی جائے تو یہ پہلی ہی بتہ، یعنی آخری طلاق ہے۔
اگر آزاد عورت کے بجائے لونڈی سے نکاح کیا گیا ہو تو دوسری طلاق آخری ہے۔
باقی حالات میں تیسری طلاق آخری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1932   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 854  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر اس عورت سے ایک دوسرے آدمی نے نکاح کر لیا اور اس سے ہمبستری کئے بغیر ہی اسے طلاق بھی دے دی۔ تو پہلے شوہر نے اس سے نکاح کرنا چاہا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! جب تک دوسرا خاوند اس سے اسی طرح لطف اندوز نہ ہو لے جس طرح پہلا خاوند ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 854»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب من جوّز الطلاق الثلاث، حديث:5260، 5261، ومسلم، النكاح، باب لا تحل المطلقة ثلاثًا لمطلقها حتي تنكح زوجًا غيره.....، حديث:1433.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مطلقۂ ثلاثہ عورت جب کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لے اور دونوں میں ازدواجی تعلق بھی قائم ہو جائے اور یہ دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے یا وفات پا جائے تو پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
2.اگر اس دوسرے خاوند سے نکاح تو ہوا مگر مباشرت اور ہم بستری نہ ہوئی اور اس نے طلاق دے دی تو اس صورت میں پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح درست نہیں ہوگا۔
اور اگر دوسرا نکاح صرف حلالہ کی نیت سے کیا تو نکاح ہی منعقد نہیں ہوگا۔
اس صورت میں مُحَلِّلْ اور مُحَلَّلْ لَہُ تو لعنتی قرار پاتے ہی ہیں‘ ساتھ ہی پہلے مرد سے دوبارہ نکاح بھی حرام ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 854   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1118  
´آدمی بیوی کو تین طلاق دیدے پھر اس سے کوئی اور شادی کر کے دخول سے پہلے اسے طلاق دیدے تو اس کے حکم کا بیان​۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: تو کیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو؟ ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان (عبدالرحمٰن) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1118]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎ یعنی انہیں جماع کی قدرت نہیں ہے۔
حتی تذوقی عُسیلته ویذوق عُسیلتك سے کنایہ جماع کی طرف ہے اورجماع کوشہد سے تشبیہ دینے سے مقصودیہ ہے کہ جس طرح شہد کے استعمال سے لذت وحلاوت حاصل ہوتی ہے اسی طرح جماع سے بھی لذت وحلاوت حاصل ہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1118   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2309  
´تین طلاق کے بعد عورت دوسرے شخص سے نکاح کئے بغیر پہلے شوہر کے پاس نہیں آ سکتی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور وہ شخص اس کے پاس گیا لیکن جماع سے پہلے ہی اس نے اسے طلاق دے دی تو کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ عورت دوسرے شوہر کی مٹھاس نہ چکھ لے اور وہ شوہر اس عورت کی مٹھاس نہ چکھ لے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2309]
فوائد ومسائل:
1: سورۃ البقرہ میں آیت 224 اور مابعد میں طلاق کے احکام بیان ہوئے ہیں۔
آیت 230 میں ہے کہ پھراگر(تیسری بار) طلاق دی تو اب وہ اس کے لئے حلال نہیں ہے جب تک کسی اور خاوند سے نکاح نہ کرلے پھراگر وہ طلاق دے دے توان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ پھر باہم مل جائیں بشرطیکہ انہیں یقین ہو وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھیں گے۔

2: یہ روایت بعض محقیقن کے نزدیک صحیح ہے، اس لئے اس میں بیان کردہ بات صحیح روایات میں بھی بیان ہوئی ہے، اس سے معلوم ہواکہ دوسری جگہ محض نکاح کر لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ دوسرے خاوند سے اس کا زن وشوہر والا تعلق قائم ہونا بھی ضروری ہے۔
اگر اس تعلق زوجیت کے بغیر ہی دوسراخاوند طلاق دے دے تو یہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی اسی طرح جو لوگ چند روز اس کے لئے نیت سے نکاح کرتے ہیں تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے تو یہ مشروط نکاح، نکاح نہیں بلکہ بدکاری ہے۔
بنا بریں حلالہ کے نام سے محض رسمی عقد کر لینا اور اسی عارضی طور پر عورت کو کسی مرد کےحوالے کر دینا تا کہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے، حرام ہے، ایسا نکاح صحیح ہے نہ رجوع۔
اس غرض سے نکاح کرنے والے کے لئے ایک بہت بڑی مثال دی گئی ہے کہ ایسا تو گویا مانگے کا سانڈ ہے۔
(سنن ابن ماجة‘ النکاح، حدیث:1936)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2309   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5792  
5792. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی وہاں موجود تھے اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں رفاعہ کی بیوی تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کیا۔ اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتی ہوں کہ اس کے پاس اس پھندے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور اس نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا۔ حضرت خالد بن سعید ؓ دروازے کے پاس کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے اور انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے وہاں کھڑے کھڑے کہا: اے ابو بکر! کیا آپ اس عورت کو منع نہیں کرتے، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بلند آواز سے کیسی گفتگو کر رہی ہے اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ اس کی باتیں سن کر صرف تبسم فرماتے رہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5792]
حدیث حاشیہ:
عورت نے اپنی جھالر دار چادر کی طرف اشارہ کیا۔
باب سے یہی جملہ مطابقت رکھتا ہے باقی دیگر مسائل جو اس حدیث سے نکلتے ہیں وہ بھی واضح ہیں۔
قانون یہ بنا کہ جس عورت کو تین طلاق دے دی جائیں اس کا پہلے خاوند سے پھر نکاح نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے خاوند سے صحبت نہ کرائے پھر وہ خاوند خود اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دے دے، یہ شرعی حلالہ ہے۔
پھر خود اس مقصد کے تحت فرضی حلالہ کرانا موجب لعنت ہے اللہ ان علماء پر رحم کرے جو عورتوں کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
تین طلاق سے تین طہر کی طلاقیں مراد ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5792   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5792  
5792. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی وہاں موجود تھے اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں رفاعہ کی بیوی تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کیا۔ اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتی ہوں کہ اس کے پاس اس پھندے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور اس نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا۔ حضرت خالد بن سعید ؓ دروازے کے پاس کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے اور انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے وہاں کھڑے کھڑے کہا: اے ابو بکر! کیا آپ اس عورت کو منع نہیں کرتے، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بلند آواز سے کیسی گفتگو کر رہی ہے اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ اس کی باتیں سن کر صرف تبسم فرماتے رہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5792]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عورت نے چادر کا وہ کنارا پکڑ کر اشارہ کیا جو صرف دھاگوں کی صورت میں تھا اور اسے بنا نہیں گیا تھا، جو چادر بنی ہوئی ہو اس میں کچھ تناؤ ہوتا ہے لیکن دھاگے تو ڈھیلے ڈھالے ہوتے ہیں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عورت کے اس اشارے سے عنوان ثابت کیا کہ اس نے ڈورے دار چادر پہن رکھی تھی۔
اگر اس کا پہننا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس سلسلے میں اس کی رہنمائی کرتے۔
ڈورے دار چادر پہننے کے متعلق ایک واضح حدیث ہے حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اپنے گھٹنوں کو اٹھائے ایک چادر پہنے بیٹھے تھے اور اس چادر کے ڈورے آپ کے قدموں پر پڑ رہے تھے۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4057)
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم کپڑے کے اطراف میں اگر دھاگے بطور زینت چھوڑ دیے گئے ہوں اور انہیں بنا نہ گیا ہو بلکہ ایک خاص انداز سے ٹانکا گیا ہو تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5792