صحيح البخاري
كِتَاب الْإِيمَانِ -- کتاب: ایمان کے بیان میں
39. بَابُ فَضْلِ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ:
باب: اس شخص کی فضیلت کے بیان میں جو اپنا دین قائم رکھنے کے لیے گناہ سے بچ گیا۔
حدیث نمبر: 52
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے، انہوں نے عامر سے، کہا میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو (شاہی محفوظ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے (اور شاہی مجرم قرار پائے) سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔ (پس ان سے بچو اور) سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 52  
´ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے`
«. . . يَقُولُ:" الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 52]

تشریح:
باب کے منعقد کرنے سے حضرت امام کا مقصد یہ ہے کہ ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر ہمارا مذہب یہی ہے کہ قلب ہی عقل کا مقام ہے اور فرماتے ہیں:
«قد اجمع العلماءعلي عظم موقع هذاالحديث وانه احدالاحاديت الاربعة التى عليهامدارالاسلام المنظومة فى قوله:»
«عمدة الدين عندنا كلمات . . . مسندات من قول خير البرية»
«اتق الشبه و ازهدن و دع ما . . . ليس يعينك واعملن بنية»
یعنی اس حدیث کی عظمت پر علماء کا اتفاق ہے اور یہ ان چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدار ہے جیسا کہ اس رباعی میں ہے کہ دین سے متعلق ارشادات نبوی کے یہ چند کلمات ہمارے نزدیک دین کی بنیاد ہیں۔ شبہ کی چیزوں سے بچو، دنیا سے بے رغبتی اختیا کرو، فضولیات سے بچو اور نیت کے مطابق عمل کرو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 52   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266    
مشتبہ امور سے بچنے کا حکم
«عن النعمان بن بشير رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول:- واهوى النعمان بإصبعيه إلى اذنيه - ‏‏‏‏إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات فقد استبرا لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك ان يقع فيه الا وإن لكل ملك حمى إلا وإن حمى الله محارمه الا وإن فى الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله الا وهى القلب . ‏‏‏‏ متفق عليه»
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ نعمان نے یہ بات اپنی انگلیاں کانوں کی طرف لے جاتے ہوئے کہی۔ یقیناً حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو شخص شبہوں سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی اور جو شبہ کی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا جیسا کہ وہ شخص جو ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد مویشی چرانے والا ہے قریب ہے کہ اس میں جا پڑے یاد رکھو ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے خبردار اللہ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار اور جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے یاد رکھو وہ دل ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1266]
دنیا سے بےرغبتی اور پرہیزگاری کا بیان
«الزهد» کسی چیز کی رغبت کم ہونا۔ مراد دنیا سے بےرغبتی اور آخرت کی طرف ساری توجہ رکھنا ہے۔
نووی نے اربعین کی شرح میں فرمایا زہد یہ ہے کہ دنیا کی غیر ضروری چیزیں چھوڑ دے خواہ حلال ہی ہوں اور انہیں چیزوں پر گزارہ کرے جن کے بغیر چارہ نہیں۔ [مسك الختام]
ترمذی اور ابن ماجہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں زہد حلال کو حرام کر لینے اور مال کو ضائع کر دینے کا نام نہیں بلکہ دنیا میں زہد یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس پر تمہیں ان چیزوں سے زیادہ بھروسہ ہو جو تمہارے ہاتھ میں ہیں اور تمہیں کوئی مصیبت اگر پہنچے تو اس کے ثواب کی رغبت اس سے زیادہ ہو کہ وہ مصیبت تمہیں نہ پہنچتی۔ صاحب سبل نے فرمایا یہ نبوی تفسیر دوسری تفسیروں سے مقدم ہے۔
مگر یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔ ترمذی نے فرمایا: اس میں عمرہ بن واقد منکر الحدیث ہے۔ البانی نے بھی اسے ضعیف جدا قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [ضعيف الترمذي حديث 405]
«الورع» بچنا مراد حرام سے بچنا بلکہ حرام سے بچنے کے لئے شبہ کی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا ہے۔

تخریج:
[بخاري 52]،
[مسلم المساقاة/107]

فوائد:
حلال ظاہر ہے۔ کسی کو اس کے حلال ہونے میں شک نہیں، مثلاً پھل، روٹی، شہد، دودھ اور کھانے پینے کی عام چیزیں، اسی طرح خرید و فروخت اور دوسرے معاملات جو سب جانتے ہیں کہ حلال ہیں۔ حرام ظاہر ہے مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، زنا، غیبت، چغلی اور جھوٹ وغیرہ ان دونوں کا حکم واضح ہے جس کی حرمت صاف قرآن و حدیث میں آ گئی وہ حرام ہے جس کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا وہ حلال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار فرمائی وہ بھی حلال ہے اور اسی طرح جس چیز کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بطور احسان فرمایا وہ بھی حلال ہے۔
ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ ان کی مشابہت حلال سے بھی ہے اور حرام سے بھی، ان کا حکم بہت سے لوگ نہیں جانتے صرف پختہ عالم ہی جانتے ہیں، اگر کوئی شخص حرام سے بچنا چاہے تو وہ ان مشتبہ چیزوں سے بھی بچے کیوں کے اگر ان چیزوں کا استعمال شروع کر دے گا تو حرام سے صحیح نفرت باقی نہیں رہے گی آہستہ آہستہ واضح حرام چیزوں کا استعمال بھی شروع کر دے گا۔
جو شبہات میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قریب ہے کہ وہ حرام میں جا پڑے کیونکہ اگر یہ مطلب نہ ہو تو پھر مشتبہات صاف ہی حرام کی قسم بن جائیں گی جبکہ یہ بات درست نہیں۔
جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی۔ کیوں کے شبہات سے بچے گا تو صریح حرام سے بد درجہ اولی بچے گا اس سے اس کا دین محفوظ ہو گیا عزت اس لئے کہ اگر شبہ والی چیزیں استعمال کرے گا تو عام لوگ بدگمان ہو جائیں گے جس سے اس کی عزت پر حرف آئے گا۔
➎ اس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں گری ہوئی ایک کھجور دیکھی تو فرمایا: اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کے مال سے ہو گی تو میں اسے کھا لیتا۔ [متفق عليه]
➏ تمام مکروہ چیزوں سے بچنا بھی اس میں شامل ہے کیونکہ مکروہ سے نفرت ختم ہوتی ہے تو آدمی حرام تک جا پہنچتا ہے۔ اگر مکروہ چیزوں سے نفرت قائم رہے تو حرام کی ارتکاب کی دلیری نہیں ہوتی۔
➐ جسم کے درست یا خراب ہونے کا اصل مرکز دل ہے۔ کیونکہ سارے اعضاء دل ہی کی بات مانتے ہیں، دل کہتا ہے تو ہاتھ اٹھ جاتا ہے آنکھ کھل جاتی ہے پاؤں چل پڑتے ہیں اور اگر وہ کہتا ہے تو آنکھ بند ہو جاتی ہے ہاتھ نیچے ہو جاتا ہے اور پاؤں رک جاتے ہیں۔ دل کسی چیز کی خواہش کرتا ہے تو عقل اس کے جواز کے دلائل کا انبار لگا دیتی ہے اگر نفرت کرتا ہے تو دوسری جانب کی دلیلیں نکال لاتی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 101   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3984  
´شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان۔`
شعبی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر یہ کہتے سنا، اور انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے، اور حرام بھی، ان کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جان پاتے (کہ حلال ہے یا حرام) جو ان مشتبہ چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا، اور جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3984]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا روز مرہ کے اعمال ان میں کچھ واضح طور پر حلال ہیں جن میں کوئی شک نہیں مثلاً:
روٹی، شہد، اللہ کا نام لے کر ذبح کیے ہوئے حلال جانور کا گوشت، جائز ضرورت کے لیے کہیں آنا جانا اور کسی سے بات چیت کرنا وغیرہ۔
کچھ چیزیں اور کا م واضح طور پر حرام ہیں مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، مردار، جھوٹ بولنا، چوری کرنا اور زنا کرنا وغیرہ۔
بعض چیزیں اور کام ایسے ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہیں۔
عام لوگ ان مسائل سے واقف نہیں ہوتے۔
علماء ان کا حکم قرآن وحدیث کے الفاظ کے اشارات واقتضاء سے یا قیاس وغیرہ سے معلوم کرتے ہیں۔

(2)
جس چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو مسئلہ پوچھنے سے پہلے بھی اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے معاملے کی ایک صورت جائز اور ایک ناجائز ہو، مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد صحیح اور راجح موقف کے مطابق عمل کیا جائے۔

(3)
مشکوک چیز پر عمل کرنے سے گناہ کا اندیشہ تو ہوتا ہی ہے عوام بھی بد ظن ہوتے ہیں۔
انسان کو بلاوجہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے وہ بدنام ہوجائے۔

(4)
جس کام سے ممنوع کام تک نوبت پہنچنے کا خطرہ ہواس سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے جیسے غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں ملنا اگرچہ پردہ کی پابندی کے ساتھ ہو اس سے خطرہ ہے کہ شیطان گناہ کی خواہش پیدا کردے اور دونوں افراد کبیرہ گناہ میں ملوث ہوجائیں۔

(5)
مثال دے کر سمجھانے سے مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور سننے والا اس پر اطمینان اور دل کی آمادگی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے۔

(6)
دل کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ اخلاص یقین اور اللہ کی محبت وغیرہ جیسی صفات حاصل ہوں۔
ان کی وجہ سے نیکی پر عمل کرنا اور اور گناہ سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3984   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266  
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان`
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور نعمان اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے کانوں کی طرف لے گئے حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ان دونوں کے درمیان شبہات ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ان کو نہیں جانتی۔ پس جو کوئی شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پھنس گیا۔ جیسے چرواہا کہ چراگاہ کے گرد مویشی چراتا ہو تو کبھی نہ کبھی مویشی چراگاہ میں چلے جاتے ہیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! حرام چیزیں اللہ کی چراگاہ ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1266»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه، حديث:52، ومسلم، المساقاة، باب أخذ الحلال وترك الشبهات، حديث:1599.»
تشریح:
1. یہ حدیث اصول اسلام میں سے شمار کی گئی ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ حلال اور حرام چیزیں تو واضح ہیں ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہے‘ البتہ مشتبہات ایسی چیزیں ہیں جن کی حرمت واضح نہیں یا جن کے بارے میں دلائل دونوں جانب تقریباًمساوی ہیں۔
اس قسم کے مسائل سے بچنا چاہیے اور ظن و تخمین سے کام نہیں لینا چاہیے۔
2.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بدن کی اصلاح اور اس کے بگاڑ کا انحصار دل پر ہے۔
پورے جسم میں اس کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کی ہے۔
تمام اعضائے بدن اس کی رعیت اور عوام ہیں۔
اگر بادشاہ نیک ہو تو رعایا بھی نیک ہوگی اور اگر وہ برا ہو تو رعایا بھی بری ہوگی۔
3. ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ہے جن پر قواعد اسلام کا دار و مدار ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1266   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1205  
´مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1205]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مرادایسے امورومعاملات ہیں جن کی حلت وحرمت سے اکثرلوگ ناواقف ہو تے ہیں،
تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریزکرے،
اور جوشخص حلت وحرمت کی پرواہ کئے بغیران میں ملوث ہوگیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلاہوگیا،
اس میں تجارت اورکاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیارکریں جو واضح طورپر حلال ہوں اورمشتبہ امورومعاملات سے اجتناب کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1205   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:52  
52. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، چنانچہ جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو شاہی چراگاہ کے آس پاس (اپنے جانوروں کو) چرائے، قریب ہے کہ چراگاہ کے اندر اس کا جانور گھس جائے۔ آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سن لو! بدن میں ایک ٹکڑا (گوشت کا) ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو! وہ ٹکڑا دل ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:52]
حدیث حاشیہ:

اس سے پہلے ابواب میں معاصی پر اصرار اورحبط اعمال سے ڈرایا گیا ہے۔
اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے طریقے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس کے اختیار کرنے سے انسان حبط اعمال سے محفوظ رہ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے تقویٰ اختیار کرنا اورمشتبہات سے اجتناب کرنا۔
اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ اور ورع بھی ایمان کا حصہ ہیں۔
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حلت وحرمت کا فیصلہ دشوارہوتاہے۔
یہ مشتبہات میں داخل ہیں۔
ان سے اجتناب کرنے میں دین اورآبرو کی حفاظت ہے۔
اہل تقویٰ مشتبہات کو محرمات کا زینہ خیال کرتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مشتبہ چیزوں سے مراد وہ پچیدہ معاملات ہیں کہ ان پر یقینی طور پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
اگرچہ اہل علم کسی حد تک ان سے باخبر ہوتے ہیں، تاہم یہ شکوک وشبہات سے خالی نہیں ہوتے۔

علماء کااتفاق ہے کہ اسلام کا دارومدار تین احادیث پر ہے:
ایک مذکورہ حدیث، دوسری نیت سے متعلقہ اور تیسری وہ جس میں ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کاموں اورفضول باتوں سے پرہیز کرے۔
امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک چوتھی حدیث کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
کیونکہ مذکورہ حدیث میں خورونوش، لباس ونکاح کے حلال ہونے کی وضاحت ہے پھر اسے مشتبہات سے الگ رہنے کے متعلق کہا گیا ہے کیونکہ اس سے اس کا دین اور آبرو محفوظ رہتی ہے، پھر اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے۔
(شرح الکرماني: 203/1)
عرب کے ہاں یہ دستورتھا کہ وہ بڑے بڑے زرخیز خطے اپنے جانوروں کے لیے مخصوص کرلیتے تھے۔
انھی خطوں کو حمیٰ کہا جاتا تھا۔
سرکاری حمیٰ محرمات ہیں اور ان کا ماحول (اردگرد)
مشتبہات ہیں جو بہت پرفریب ہوتی ہیں۔
حدیث میں اس کو بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے اپنےنفس کومشتبہات کے لیے آزاد چھوڑدیا تو وہ یقیناً محرمات میں جا سکتا ہے۔
ان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں اتنی گنجائش رکھ دی ہے کہ محرمات کی طرف آنے کی ضرورت نہیں۔
اب اتنی چیزوں کی حلت کے باوجود کوئی ان کی طرف جاتا ہے تو خباثتِ نفس کی انتہا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باطنی صلاح وفساد کا دارومدار انسان کے دل پر ہے۔
جس شخص کے دل میں بگاڑ ہوگا اس کے دیگر اعضاء سے صادر ہونے والے اعمال بھی اس کے آئینہ دار ہوں گے۔
اس کے ساتھ ایمان کا تعلق ہے اور یہی محل نیت ہے۔
حلال وحرام اورمشتبہات میں فیصلے کے لیے بھی دل ہی رہنمائی کرتا ہے، لہٰذا اسے درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگردل درست ہے تو اس پیچیدہ معاملات میں فتویٰ لینے کی تلقین کی گئی ہے۔
طبی لحاظ سے بھی اعضاء کی صحت وسقم کا مداردل پر ہے۔
اگراس میں بگاڑ آجائے تو پورا نظام جسم بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔

صلاح قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل چیزیں پیدا ہوجائیں:
اللہ کی محبت، رضا بالقضاء، توکل علی اللہ، صبروشکر، رجا وخوف، فکرآخرت، توبہ وانابت اور قناعت و تواضع۔
فساد قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں درج ذیل اشیاء آجائیں، تکبر وغرور، خود پسندی، حسد وحقد، حب مال وجاہ، بخل وحرص، طول امل(لمبی امیدیں)
اور لا یعنی گفتگو۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ورع وپرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے اعمال میں سے ہے اور اس میں مراتب ہیں، لہٰذا ایمان ودین میں بھی مراتب ہیں، ایمان کے لیے ان کا بجا لانا اس کے ثمر آور ہونے کا باعث ہے اور ان کا ترک کردینا ایمان کو کمزور کردینے کے مترادف ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 52