صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
12. بَابُ الْقَبَاءِ وَفَرُّوجِ حَرِيرٍ:
باب: قباء اور ریشمی فروج کے بیان میں۔
وَهْوَ الْقَبَاءُ وَيُقَالُ هُوَ الَّذِي لَهُ شَقٌّ مِنْ خَلْفِهِ.
‏‏‏‏ «فروج» بھی «قباء» ہی کو کہتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ «فروج» اس «قباء» کو کہتے ہیں جس میں پیچھے چاک ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 5800
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ:" قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبِيَةً وَلَمْ يُعْطِ مَخْرَمَةَ شَيْئًا، فَقَالَ مَخْرَمَةُ: يَا بُنَيِّ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَقَالَ: ادْخُلْ فَادْعُهُ لِي، قَالَ: فَدَعَوْتُهُ لَهُ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ وَعَلَيْهِ قَبَاءٌ مِنْهَا، فَقَالَ: خَبَأْتُ هَذَا لَكَ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: رَضِيَ مَخْرَمَةُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قبائیں تقسیم کیں اور مخرمہ رضی اللہ عنہ کو کچھ نہیں دیا تو مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا بیٹے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو چنانچہ میں اپنے والد کو ساتھ لے کر چلا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ اندر جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا ذکر کر دو۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخرمہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو آپ باہر تشریف لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قباؤں میں سے ایک قباء لیے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میں نے تمہارے ہی لیے رکھ چھوڑی تھی۔ مسور نے بیان کیا کہ مخرمہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مخرمہ خوش ہو گئے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4028  
´قباء کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ قبائیں تقسیم کیں اور مخرمہ کو کچھ نہیں دیا تو مخرمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیٹے! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو چنانچہ میں ان کے ساتھ چلا (جب وہاں پہنچے) تو انہوں نے مجھ سے کہا: اندر جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے لیے بلا لاؤ، تو میں نے آپ کو بلایا، آپ باہر نکلے، آپ انہیں قباؤں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مخرمہ رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: میں نے اسے تمہارے لیے چھپا کر رکھ لیا تھا تو مخرمہ رضی اللہ عنہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4028]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت اور ان کا مزاج خوب سمجھتے تھے اور ان کی خوبی خیال رکھتے تھے۔
آج بھی اور تاقیامت تمام امت کے بالعموم اور مذہبی رہنماوں کے لئے بالخصوص اپنے رفقائے کار کے لئے بھی رسول اللہ ؐکی ذات بہترین نمونہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4028   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5800  
5800. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند قبائیں تقسیم کیں اور حضرت مخرمہ ؓ کو کچھ نہ دیا تو انہوں نے کہا: بیٹے! میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو، چنانچہ میں اپنے والد محترم کے ساتھ گیاَ۔ انہوں نے مجھے کہا: تم اندر جاؤ اور آپ ﷺ سے میرا ذکر کرو۔ میں نے آپ ﷺ سے اپنے والد کا ذکر کیا تو آپ باہر تشریف لائے جبکہ انھی قباؤں میں سے ایک قبا ساتھ لیے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا؛ یہ قبا میں نے تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔ حضرت مخرمہ ؓ نے اسے دیکھا تو کہنے لگے: مخرمہ راضی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5800]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ قبائیں ریشمی تھیں۔
حدیث کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنا تھا۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا ہے کہ شاید اس وقت ریشم پہننا مردوں کے لیے حلال ہو گا، یا آپ نے بطور حفاظت اس قبا کو اپنے اوپر ڈالا ہو گا۔
اسے پہننا نہیں کہتے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس قبا تھی۔
(المستدرك للحاکم: 390/3، حدیث: 6074، و فتح الباري: 332/10) (2)
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اور ان کے مزاج کو بخوبی سمجھتے تھے۔
دینی رہنماؤں کو اس سے سبق لینا چاہیے اور اپنے رفقائے کار کا خیال رکھنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5800