صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
12. بَابُ الْقَبَاءِ وَفَرُّوجِ حَرِيرٍ:
باب: قباء اور ریشمی فروج کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 5801
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ:" أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُّوجُ حَرِيرٍ، فَلَبِسَهُ ثُمَّ صَلَّى فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَزَعَهُ نَزْعًا شَدِيدًا كَالْكَارِهِ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: لَا يَنْبَغِي هَذَا لِلْمُتَّقِينَ"، تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ اللَّيْثِ، وَقَالَ غَيْرُهُ، فَرُّوجٌ حَرِيرٌ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشم کی فروج (قباء) ہدیہ میں دی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنا (ریشم کا مردوں کے لیے حرمت کے حکم سے پہلے) اور اسی کو پہنے ہوئے نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بڑی تیزی کے ساتھ اتار ڈالا جیسے آپ اس سے ناگواری محسوس کرتے ہوں پھر فرمایا کہ یہ متقیوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس روایت کی متابعت عبداللہ بن یوسف نے کی ان سے لیث نے اور عبداللہ بن یوسف کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ «فروج حرير‏.‏» ۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 771  
´ریشمی کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشمی قباء ہدیے میں دی گئی، تو آپ نے اسے پہنا، پھر اس میں نماز پڑھی، پھر جب آپ نماز پڑھ چکے تو اسے زور سے اتار پھینکا جیسے آپ اسے ناپسند کر رہے ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل تقویٰ کے لیے یہ مناسب نہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 771]
771 ۔ اردو حاشیہ: ریشم پہننا مرد کے لیے ناجائز ہے۔ اس میں نماز پڑھنا بدرجۂ اولیٰ ناپسندیدہ ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت سے قبل پہنی ہو گی۔ پھر ناپسندیدگی کی وجہ سے اتاری۔ یہ نہیں کہ حرام ہونے کے بعد پہنی یا اتاری۔ آپ کے یہ الفاظ: «لَا يَنْبَغِي هَذَا لِلْمُتَّقِينَ» بھی دلیل ہیں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب ریشم حرام نہ ہوا تھا۔ حرمت کے بعد تو متقی اور غیرمتقی برابر ہیں، البتہ ریشم میں پڑھی ہوئی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ نماز کے اندر کوئی خرابی نہیں ہوئی اور نہ اس کی کوئی شرط یا رکن مفقود ہوا۔ ریشم کا حرام ہونا نماز سے الگ مسئلہ ہے، گویا ریشم پہننے کا گناہ الگ ہے اور نماز کی صحت ایک الگ چیز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 771   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5801  
5801. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک ریشمی قبا بطور ہدیہ دی گئی۔ آپ نے اسے زیب تن فرما کر نماز ادا کی۔ فراغت کے بعد آپ نے اس کو جلدی سے اتار دیا جیسے آپ اس سے ناگواری محسوس کرتے ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے مناسب نہیں۔ عبداللہ بن یوسف نے لیث سے روایت کرنے میں قتیبہ کی متابعت کی ہے۔ عبداللہ بن یوسف کے علاوہ دوسروں نے ''فروج حریر'' کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5801]
حدیث حاشیہ:
اس میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قبائیں ریشمی تھیں آپ نے کیونکر پہنی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ شاید اس وقت تک ریشمی کپڑا مردوں کے لیے حرام نہ ہوا ہو گا یا آپ نے اس قبا کو بطور حفاظت اپنے اوپر ڈال لیا ہوگا، یہ پہننا نہیں ہے جیسے کوئی کسی کو دینا چاہتا ہو اس کے بعد ریشمی کپڑا مردوں پر حرام ہو گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5801   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5801  
5801. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک ریشمی قبا بطور ہدیہ دی گئی۔ آپ نے اسے زیب تن فرما کر نماز ادا کی۔ فراغت کے بعد آپ نے اس کو جلدی سے اتار دیا جیسے آپ اس سے ناگواری محسوس کرتے ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے مناسب نہیں۔ عبداللہ بن یوسف نے لیث سے روایت کرنے میں قتیبہ کی متابعت کی ہے۔ عبداللہ بن یوسف کے علاوہ دوسروں نے ''فروج حریر'' کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5801]
حدیث حاشیہ:
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی قبا پہن کر مغرب کی نماز پڑھائی، سلام پھیرنے کے بعد اسے جلدی سے اتار پھینکا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:
اللہ کے رسول! آپ نے اسے پہنا پھر اس میں نماز ادا کی، تو آپ نے مذکورہ جواب دیا۔
ابن بطال کہتے ہیں کہ آپ نے اسے جلدی سے اتارا کیونکہ ریشم کا استعمال مردوں کے لیے حرام تھا اور یہ قبا خالص ریشم کی تھی یا اس لیے اتارا کہ وہ عجمیوں کا لباس تھا۔
حدیث میں ہے:
جس نے کسی قسم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گا۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4031)
بہرحال ریشم مردوں کے لیے حرام اور عورتوں کے لیے جائز ہے جس کی آئندہ وضاحت ہو گی۔
(فتح الباري: 334/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5801