صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
18. بَابُ الْبُرُودِ وَالْحِبَرَةِ وَالشَّمْلَةِ:
باب: دھاری دار چادروں، یمنی چادروں اور کملیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 5810
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ بِبُرْدَةٍ، قَالَ: سَهْلٌ هَلْ تَدْرِي مَا الْبُرْدَةُ؟، قَالَ: نَعَمْ، هِيَ الشَّمْلَةُ مَنْسُوجٌ فِي حَاشِيَتِهَا، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي نَسَجْتُ هَذِهِ بِيَدِي أَكْسُوكَهَا، فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَإِنَّهَا لَإِزَارُهُ، فَجَسَّهَا رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْسُنِيهَا، قَالَ: نَعَمْ، فَجَلَسَ مَا شَاءَ اللَّهُ فِي الْمَجْلِسِ، ثُمَّ رَجَعَ فَطَوَاهَا، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: مَا أَحْسَنْتَ سَأَلْتَهَا إِيَّاهُ وَقَدْ عَرَفْتَ أَنَّهُ لَا يَرُدُّ سَائِلًا، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَاللَّهِ مَا سَأَلْتُهَا إِلَّا لِتَكُونَ كَفَنِي يَوْمَ أَمُوتُ، قَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک عورت ایک چادر لے کر آئیں (جو اس نے خود بنی تھی) سہل رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں معلوم ہے وہ پردہ کیا تھا پھر بتلایا کہ یہ ایک اونی چادر تھی جس کے کناروں پر حاشیہ ہوتا ہے۔ ان خاتون نے حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ چادر میں نے خاص آپ کے اوڑھنے کے لیے بنی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر ان سے اس طرح لی گویا آپ کو اس کی ضرورت ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے تہمد کے طور پر پہن کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ جماعت صحابہ میں سے ایک صاحب (عبدالرحمٰن بن عوف) نے اس چادر کو چھوا اور عرض کی یا رسول اللہ! یہ مجھے عنایت فرما دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا۔ جتنی دیر اللہ نے چاہا آپ مجلس میں بیٹھے رہے پھر تشریف لے گئے اور اس چادر کو لپیٹ کر ان صاحب کے پاس بھجوا دیا۔ صحابہ نے اس پر ان سے کہا تم نے اچھی بات نہیں کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چادر مانگ لی۔ تمہیں معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سائل کو محروم نہیں فرماتے۔ ان صاحب نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اس لیے مانگی ہے کہ جب میں مروں تو یہ میرا کفن ہو۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا چنانچہ وہ چادر اس صحابی کے کفن ہی میں استعمال ہوئی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3555  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں «بردہ» (چادر) لے کر آئی (ابوحازم نے پوچھا «بردہ» کیا چیز ہے؟ ان کے شیخ نے کہا: «بردہ» شملہ ہے جسے اوڑھا جاتا ہے) اور کہا: اللہ کے رسول! اسے میں نے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تاکہ میں آپ کو پہناؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، پھر آپ اسے پہن کر کے ہمارے درمیان نکل کر آئے، یہی آپ کا تہبند تھا، پھر فلاں کا بیٹا فلاں آیا (اس شخص کا نام حدیث بیان کرنے کے دن سہل نے لیا تھا لیکن ابوحازم اسے بھول گئے) او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3555]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تحفہ دینا اور تحفہ قبول کرنا اچھے اخلاق میں شامل ہے۔

(2)
عورتیں دستکاری کے کام کر کے گھر کی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہیں بشرطیکہ پردے کے تقاضے کما حقہ پورے ہو سکیں۔

(3)
کوئی چیز اگر کوئی شخص مانگ لے تو سخاوت کا تقاضہ ہے کہ اسے دے دی جائے اگر چہ خود کو ضرورت ہو۔

(4)
  رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک سے مس ہونے والی چیزحصول برکت کے لئے اپنے پاس رکھنا یا استعمال کرنا درست ہے۔
یہ صرف اس صورت میں ہے جب یہ یقینی طور پر ثابت ہو کہ اس کا تعلق نبی ﷺ کی ذات سے رہ چکا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے مختلف حکمرانوں کو جو خطوط اور گرامی نامے بھیجے تھے ان کے علاوہ اب دنیا میں ایسی کسی چیز کا قطعاَََ َکوئی وجود نہیں ہے۔
یہ جو عوام الناس میں موئے مبارک وغیرہ قسم کی اشیاء مشہور کر دی گئی ہیں بالکل بے اصلی اور بے بنیاد باتیں ہیں۔
ایسی تمام اشیاء کے متعلق دعویٰ با لکل بلا دلیل ہے۔
جناب رسول کریم ﷺ سے متعلق کوئی بھی چیز ازقسم:
عصا، عمامہ، موئے مبارک اور نعلین وغیرہ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں کہیں موجود نہیں۔
یہ سب من گھڑت اور خود ساختہ قصے کہانیاں ہیں۔
واللہ اءعلم۔

(5)
سلف صالحین نے کسی صحابی یا تابعی سے منسوب چیز کو بطور تبرک محفوظ نہیں رکھا۔
جو چیزیں بعض صحابہ ؓ کی طرف منسوب ہیں ان میں سے اکثر کی ان حضرات کی طرف نسبت درست نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3555   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5810  
5810. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کر آئی۔۔۔ حضرت سہل ؓ نے (اپنے شاگرد سے) پوچھا: تم جانتے ہو بردہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں یہ ایک چادر ہے جس کے حاشے بنے ہوتے ہیں۔۔۔ اس عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے یہ چادر اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے اور آپ کو پہنانا چاہتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے چادر ضرورت مند کے طور پر اس سے لے لی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اسے تہبند کے طور پر باندھ کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ صحابہ کرام میں سے ایک صاحب نے اسے چھوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! یہ مجھےعطاء کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں لے لو۔ پھر آپ جس قدر اللہ تعالٰی نے چاہا مجلس میں بیٹھے اس کے بعد گھر تشریف لے گئے اور وہ چادر لپیٹ کر اس کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام نے اس آدمی سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کہ آپ ﷺ سے وہ چادر مانگ لی جبکہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5810]
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے اس حدیث سے نکلا کہ کفن کے لیے بزرگوں کا مستعمل لباس لے لینا جائز ہے۔
وہ خاتون کس قدر خوش نصیب تھی جس نے اپنے ہاتھوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ اونی چادر بہترین شکل میں تیار کی اور آپ نے اسے بخوشی قبول فرما لیا پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی کیسے خوش نصیب ہیں جن کو یہ چادر کفن کے لیے نصیب ہوئی چونکہ اس حدیث میں آپ کے لیے اونی چادر کا ذکر ہے باب سے یہی مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5810   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5810  
5810. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کر آئی۔۔۔ حضرت سہل ؓ نے (اپنے شاگرد سے) پوچھا: تم جانتے ہو بردہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں یہ ایک چادر ہے جس کے حاشے بنے ہوتے ہیں۔۔۔ اس عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے یہ چادر اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے اور آپ کو پہنانا چاہتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے چادر ضرورت مند کے طور پر اس سے لے لی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اسے تہبند کے طور پر باندھ کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ صحابہ کرام میں سے ایک صاحب نے اسے چھوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! یہ مجھےعطاء کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں لے لو۔ پھر آپ جس قدر اللہ تعالٰی نے چاہا مجلس میں بیٹھے اس کے بعد گھر تشریف لے گئے اور وہ چادر لپیٹ کر اس کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام نے اس آدمی سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کہ آپ ﷺ سے وہ چادر مانگ لی جبکہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5810]
حدیث حاشیہ:
(1)
چادر مانگنے والے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے سے پہلے اپنا کفن تیار کرنا جائز ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الجنائز، باب: 28) (3)
وہ خاتون کس قدر خوش نصیب تھی جس نے اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہترین اونی چادر تیار کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بخوشی قبول فرمایا اور زیب تن کیا، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کس قدر خوش نصیب ہیں جنہیں یہ چادر کفن کے لیے نصیب ہوئی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونی چادر استعمال کرنا جائز ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5810