صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
42. بَابُ الْقُبَّةِ الْحَمْرَاءِ مِنْ أَدَمٍ:
باب: لال چمڑے کا خیمہ بنانا۔
حدیث نمبر: 5859
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ وَضُوءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يَبْتَدِرُونَ الْوَضُوءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ".
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن ابی زائدہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی جحیفہ نے اور ان سے ان کے والد وہب بن عبداللہ سوائی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں (حجۃ الوداع کے موقع پر) خدمت نبوی میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کے ایک سرخ خیمہ میں تشریف رکھے ہوئے تھے اور میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی لیے ہوئے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کو لے لینے میں ایک دوسرے کے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو کچھ پانی مل جاتا ہے تو وہ اسے اپنے بدن پر لگا لیتا ہے اور جسے کچھ نہیں ملتا وہ اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی کو لگانے کی کوشش کرتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 28  
´امور فطرت کا بیان`
«. . . 419- وعن سعيد المقبري عن أبيه عن أبى هريرة قال: خمس من الفطرة: تقليم الأظفار، وقص الشارب، ونتف الإبط، وحلق العانة، والاختتان. . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ناخن تراشنا، مونچھیں کٹوانا، بغلوں کے بال نوچنا، زیرناف شرمگاہ کے بال مونڈنا اور ختنہ کرنا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 28]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري فى الادب المفرد 1294، من حديث مالك به وللحديث لون آخر عند النسائي 8/128 ح5047، ورواه البخاري 5859، ومسلم 257، من حديث سعيد بن المسيب عن ابي هريرة به مرفوعًا والحديثان صحيحان والحمدلله]

تفقه:
➊ اس حدیث میں جن پانچ اُمور کا ذکر آیا ہے یہ دین فطرت میں سے ہیں۔ ناخن تراشنے ہوں یا مونچھیں کٹوانا وغیرہ ان کے لیے زیادہ سے زیادہ چالیس دنوں کی حد ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے لئے مونچھیں کٹوانے، ناخن تراشنے، بغلوں کے بال نوچنے اور شرمگاہ کے بال مونڈنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے کہ چالیس راتوں سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ [صحيح مسلم: 258، دارالسلام: 599]
➋ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں داڑھی چھوڑنا، مسواک، ناک میں پانی ڈالنا، انگلیوں کے پورے دھونا اور استنجا کرنا بھی فطرت میں شامل کیا گیا ہے۔ [ديكهئے صحيح مسلم: 261، دارالسلام: 604 و سنده حسن]
➌ درج بالا حدیث اگرچہ موطأ کے نسخوں میں موقوف ہے لیکن حافظ ابن عبدالبر نے اسے صحیح سند کے ساتھ امام مالک سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ [التمهيد 21/56] نیز دیکھئے [صحيح بخاري 5891، وصحيح مسلم 257]
➍ مونچھیں کاٹنا یا کٹوانا بہتر ہے اور افضل یہ ہے کہ اتنی مونچھیں کاٹی جائیں کہ جِلد نظر آنے لگے۔ دیکھئے [صحيح بخاري قبل ح5888 تعليقاً، الاثرم نحو المعنيٰ بحواله تغليق التعليق 5/72، وسنده حسن]
◄ عبیداللہ بن عمر بن میسرہ القواریری رحمہ اللہ نے کہا: ایک دن سفیان بن عیینہ ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے اپنی مونچھیں استرے سے مونڈ رکھی تھیں۔ [التاريخ الكبير لابن ابي خيثمه ص378، 379 ح387، وسنده صحيح] معلوم ہوا کہ بعض علماء کا مونچھیں مونڈنے کو مثلہ وغیرہ کہنا صحیح نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 419   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 634  
´ کیا مؤذن اذان میں اپنا منہ ادھر ادھر (دائیں بائیں) پھرائے`
«. . . عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّهُ رَأَى بِلَالًا يُؤَذِّنُ، فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ فَاهُ هَهُنَا وَهَهُنَا بِالْأَذَانِ . . .»
. . . عون بن ابی حجیفہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے کہ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 634]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اذان کے وقت اِدھر اُدھر منہ کرنے کو پیش فرمایا ہے یہاں مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ نماز کے لئے وضو شرط ہے اور بندہ نماز میں التفات اِدھر اُدھر اپنے منہ نہیں کر سکتا اس لئے کہ نماز میں قبلہ رو ہونا شرط ہے، لہٰذا جب اذان میں اِدھر اُدھر بندہ اپنا منہ کر سکتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے لئے وضو شرط نہیں ہے جیسا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نقل کیا کہ آپ علیہ السلام ہر حالت میں ذکر فرماتے تھے تو معلوم ہوا کہ ہر حالت میں ذکر کرنے کے لئے وضو شرط نہیں اور اذان دینا بھی ایک ذکر ہے اور اس پر بھی وضو شرط نہیں ہے۔
◈ ابوجحیفہ سے جو اثر منقول ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان میں اِدھر اُدھر منہ کیا کرتے تھے یہ بھی اسی مسئلہ پر دال ہے۔ «والله اعلم»
◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «غرضه اثبات ان الأذان غير ملحق بالصلاة فى الاحكام ولا يشترط فيه الاستقبال، وبهذا يتحقق المناسبة بين الترجمة والاثار الواردة فيه» [شرح تراجم ابواب البخاري، ص202]
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ آپ ثابت کر رہے ہیں کہ اذان نماز کے ساتھ ملحق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں (بیت اللہ کی طرف منہ کرنا) استقبال کی کوئی شرط ہے۔
لہٰذا یہی مناسبت ہے ترجمۃ الباب کی ان آثار کے ساتھ جو وارد ہوئے ہیں۔
◈ امام عبدالله بن سالم البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لأن الأذان من جملة الاذكار فلا يشترط فيه ما يشترط فى الصلاة من الطهارة ولا من استقبال القبلة كما لا يستحب فيه الخشوع الذى ينافيه الالتفات» [ضياء الباري فى مالك ابواب البخاري، ج7، ص74]
اذان دراصل اذکار میں سے ہے اس (کی ادائیگی کے لئے) وہ شرائط نہیں ہیں جو نماز کی ہیں۔ جیسے کہ طہارت کا ہونا، قبلہ رو ہونا اور اس میں خشوع کا ہونا بھی مستحب نہیں ہے جو التفات کے منافی ہو (یعنی اذان میں التفات کر سکتے ہیں)۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں یہ مقصود ہے کہ مؤذن دائیں اور بائیں طرف التفات کر سکتا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ میں (اذان دیتے ہوئے) اپنے منہ کو ادھر ادھر یعنی دائیں اور بائیں پھیرتا «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» پر۔
ان تصریحات کا حاصل یہ ہے کہ اذان میں جب التفات ہو سکتا ہے تو اس کا حکم نماز کا نہیں ہے کیونکہ نماز میں خشوع اور خضوع کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ بس جب اذان کا حکم نماز جیسا نہیں تو اس کے لئے طہارت بھی شرط نہیں۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 182   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5859  
5859. حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ چمڑے کے سرخیمے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ نبی ﷺ کے وضو کا پانی لیے ہوئے ہیں اور لوگ اس وضو کا پانی لینے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو پانی مل جاتا تو وہ اسے بدن پر لگا لیتا اور جسے پانی نہ ملتا تو وہ اپنےساتھی کے ہاتھ کی تری ہی لے لیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5859]
حدیث حاشیہ:
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعقیدت کس درجہ تھی۔
آپ کے وضو کے گرے ہوئے پانی کو وہ کس سبقت کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اثنائے بیان میں سرخ خیمے کا ذکر آیا ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5859   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5859  
5859. حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ چمڑے کے سرخیمے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ نبی ﷺ کے وضو کا پانی لیے ہوئے ہیں اور لوگ اس وضو کا پانی لینے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو پانی مل جاتا تو وہ اسے بدن پر لگا لیتا اور جسے پانی نہ ملتا تو وہ اپنےساتھی کے ہاتھ کی تری ہی لے لیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5859]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے چمڑے کے سرخ خیمے کے متعلق عنوان قائم کیا ہے لیکن دوسری حدیث میں سرخ خیمے کا ذکر نہیں ہے، دراصل پہلی حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ حجۃ الوداع کا ہے اور دوسری حدیث میں غزوۂ طائف کا ذکر ہے جس میں حنین کی غنیمتیں تقسیم ہوئی تھیں۔
ان دونوں واقعات میں صرف دو سال کا وقفہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے شاہ خرچ نہ تھے کہ دو سال کے بعد نیا خیمہ خرید فرماتے بلکہ حجۃ الوداع کے موقع پر جس خیمے میں آپ تشریف فرما تھے یہ وہی خیمہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع کر کے ان کی غلط فہمی دور فرمائی تھی، اس لیے اگرچہ دوسری حدیث میں سرخ خیمے کا ذکر نہیں، تاہم اس خیمے سے مراد بھی سرخ خیمہ ہی ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 386/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5859