صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
54. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يَنْقُشُ عَلَى نَقْشِ خَاتَمِهِ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ کوئی شخص اپنی انگوٹھی پر لفظ ”محمد رسول اللہ“ کا نقش نہ کھدوائے۔
حدیث نمبر: 5877
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ وَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، وَقَالَ:" إِنِّي اتَّخَذْتُ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ وَنَقَشْتُ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَلَا يَنْقُشَنَّ أَحَدٌ عَلَى نَقْشِهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں یہ نقش کھدوایا «محمد رسول الله» اور لوگوں سے کہہ دیا کہ میں نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا کر اس پر «محمد رسول الله» نقش کروایا ہے۔ اس لیے اب کوئی شخص یہ نقش اپنی انگوٹھی پر نہ کھدوائے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 65  
´مناولہ کا بیان`
«. . . قَالَ:" كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ، فَقِيلَ لَهُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 65]

تشریح:
مناولہ اصطلاح محدثین میں اسے کہتے ہیں اپنی اصل مرویات اور مسموعات کی کتاب جس میں اپنے استادوں سے سن کر حدیثیں لکھ رکھی ہوں اپنے کسی شاگرد کے حوالہ کر دی جائے اور اس کتاب میں درج شدہ احادیث کو روایت کرنے کی اس کو اجازت بھی دے دی جائے، تو یہ جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہی ہے۔ اگر اپنی کتاب حوالہ کرتے ہوئے روایت کرنے کی اجازت نہ دے تو اس صورت میں «حدثني» یا «اخبرني فلاں» کہنا جائز نہیں ہے۔ حدیث نمبر 64 میں کسریٰ کے لیے بددعا کا ذکر ہے کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تھا، چنانچہ خود اس کے بیٹے نے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔ سو جب وہ مرنے لگا تو اس نے دواؤں کا خزانہ کھولا اور زہر کے ڈبے پر لکھ دیا کہ یہ دوا قوت باہ کے لیے اکسیر ہے۔ وہ بیٹا جماع کا بہت شوق رکھتا تھا جب وہ مر گیا اور اس کے بیٹے نے دواخانے میں اس ڈبے پر یہ لکھا ہوا دیکھا تو اس کو وہ کھا گیا اور وہ بھی مر گیا۔ اسی دن سے اس سلطنت میں تنزل شروع ہوا، آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے کے کسریٰ کا نام پرویز بن ہرمزبن نوشیروان تھا، اسی کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔ اس کے قاتل بیٹے کا نام شیرویہ تھا، خلافت فاروقی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ایران فتح ہوا۔

مناولہ کے ساتھ باب میں مکاتبت کا ذکر ہے جس سے مراد یہ کہ استاد اپنے ہاتھ سے خط لکھے یا کسی اور سے لکھوا کر شاگرد کے پاس بھیجے، شاگرد اس صورت میں بھی اس کو اپنے استاد سے روایت کر سکتا ہے۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد قوت اجتہاد کی بنا پر ہر دو مذکورہ احادیث سے ان اصطلاحات کو ثابت فرمایا ہے پھر تعجب ہے ان کم فہموں پر جو حضرت امام کو غیر فقیہ اور زود رنج اور محض ناقل حدیث سمجھ کر آپ کی تخفیف کے درپے ہیں۔ «نعوذ بالله من شرورانفسنا»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 65   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5877  
5877. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ کرایا اور فرمایا: ہم نے یہ انگوٹھی چاندی کی بنوائی ہے اور اس پر [محمد رسول اللہ] کندہ کرایا ہے لہذا کوئی شخص اپنی انگوٹھی پریہ نقش قطعاً کندہ نہ کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5877]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد چاندی کی انگوٹھی پہن سکتے ہیں اور سونے کی انگوٹھی عورتیں پہن سکتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5877   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3641  
´انگوٹھی کے نقش کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں ایک حبشی نگینہ تھا، اور اس میں «محمد رسول الله» کا نقش تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3641]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح بخاری کی روایت میں ہے:
نبی ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی اسی میں سے تھا۔ (صحيح البخاري، اللباس، باب فصّ الخاتم، حديث: 5869)
حافظ ابن حجر  نے حبشی نگینہ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس کا ڈیزائن یا نقش حبشى انداز کا تھا۔
اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ وہ حبشہ کے علاقے کا پتھر یا عقیق تھا تو ممکن ہے کہ دو انگوٹھیاں ہوں۔
ایک چاندی کے نگینے والی اور ایک پتھر کے نگینے والی۔
واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 10 /396)

(2)
مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔

(3)
انگوٹھی میں کوئی لفظ یا حرف کندہ کرانا جائز ہے۔

(4)
خلیفہ قاضی یا دوسرے افسران کی مہر کی نقل تیار کرنا منع ہے کیونکہ اس سے جعل سازی اور فریب کا دروازہ کھلتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3641   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1739  
´چاندی کی انگوٹھی کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ (عقیق) حبشہ کا بنا ہوا تھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1739]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آنے والی انس کی روایت جس میں ذکر ہے کہ نگینہ بھی چاندی کا تھا،
اور باب کی اس روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے،
کیوں کہ احتمال ہے کہ آپ کے پاس دوقسم کی انگوٹھیا ں تھیں،
یا یہ کہاجائے کہ نگینہ چاندی کا تھا،
حبشہ کی جانب نسبت کی وجہ یہ ہے کہ حبشی نقش ونگار یا طرز پر بناہواتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1739   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4214  
´انگوٹھی بنانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شاہان عجم کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ وہ ایسے خطوط کو جو بغیر مہر کے ہوں نہیں پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں «محمد رسول الله» کندہ کرایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4214]
فوائد ومسائل:
رسول اللہﷺ کی انگوٹھی محض زینت کے لیئے نہیں تھی، بلکہ بطور مہر استعمال ہوتی تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4214   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5877  
5877. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ کرایا اور فرمایا: ہم نے یہ انگوٹھی چاندی کی بنوائی ہے اور اس پر [محمد رسول اللہ] کندہ کرایا ہے لہذا کوئی شخص اپنی انگوٹھی پریہ نقش قطعاً کندہ نہ کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5877]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش "محمد رسول اللہ" کی حیثیت چونکہ سرکاری تھی، اس لیے اس جیسے نقش کی انگوٹھی بنوانے سے روک دیا گیا اور اس نقش کی سرکاری حیثیت کی وجہ ہی سے بعد میں اسے خلفائے ثلاثہ بھی استعمال کرتے رہے حتی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے جب وہ انگوٹھی گم ہو گئی تو انہوں نے اسی نقش والی انگوٹھی دوبارہ بنوائی، اس بنا پر ہمارا رجحان یہ ہے کہ حاکم وقت، قاضی، مفتی یا دوسرے صاحب اختیار افسران بالا کی مہر کی نقل تیار کرنا منع ہے کیونکہ اس سے جعل سازی اور فریب کاری کا دروازہ کھلتا ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش کی مثل نقش کندہ کرانے کی ممانعت آپ کی حیات طیبہ سے خاص تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ نقش کندہ کرانا جائز ہے، چنانچہ تینوں خلفائے راشدین اسی انگوٹھی کو استعمال کرتے تھے، البتہ اپنا نام یا اللہ کا ذکر کندہ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن میں اپنے نام یا اللہ کا ذکر کندہ کرانے کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 403/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5877