صحيح البخاري
كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ -- کتاب: وحی کے بیان میں
--. ( بَابٌ: )
باب: (رمضان المبارک میں جبرائیل علیہ السلام کا وحی لانا)
حدیث نمبر: 6
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ. ح وحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ نَحْوَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ".
ہم کو عبدان نے حدیث بیان کی، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، ان کو یونس نے، انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ (دوسری سند یہ ہے کہ) ہم سے بشر بن محمد نے یہ حدیث بیان کی۔ ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے یونس اور معمر دونوں نے، ان دونوں نے زہری سے روایت کی پہلی سند کے مطابق زہری سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6  
´قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا`
«. . . قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 6]

تشریح:
اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ رمضان شریف میں حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تو معلوم ہوا کہ قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا۔ جیسا کہ آیت شریفہ «شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن» [البقرة: 185] میں مذکور ہے۔ یہ نزول قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں سماء دنیا کی طرف تھا۔ پھر وہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول بھی رمضان شریف ہی میں شروع ہوا۔ اسی لیے رمضان شریف قرآن کریم کے لیے سالانہ یادگار مہینہ قرار پایا اور اسی لیے اس مبارک ماہ میں آپ اور حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید کا باقاعدہ دور فرمایا کرتے تھے۔ساتھ ہی آپ کے جود کا ذکر خیر بھی کیا گیا۔

سخاوت خاص مال کی تقسیم کا نام ہے اور «جود» کے معنی «اعطاءما ينبغي لمن ينبغي» کے ہیں جو بہت زیادہ عمومیت لئے ہوئے ہے۔ پس «جود» مال ہی پر موقوف نہیں۔ بلکہ جو شے بھی جس کے لئے مناسب ہو دے دی جائے، اس لئے آپ «اجود الناس» تھے۔ حاجت مندوں کے لئے مالی سخاوت، تشنگان علوم کے لئے علمی سخاوت، گمراہوں کے لئے فیوض روحانی کی سخاوت، الغرض آپ ہر لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میں بہترین سخی تھے۔ آپ کی جملہ سخاوتوں کی تفصیلات کتب احادیث و سیر میں منقول ہیں۔

آپ کی «جود» و سخاوت کی تشبیہ بارش لانے والی ہواؤں سے دی گئی جو بہت ہی مناسب ہے۔ باران رحمت سے زمین سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ آپ کی جود و سخاوت سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہو گئی۔ ہر طرف ہدایات کے دریا بہنے لگے۔ خدا شناسی اور اخلاق فاضلہ کے سمندر موجیں مارنے لگے۔ آپ کی سخاوت اور روحانی کمالات سے ساری دنیائے انسانیت نے فیض حاصل کئے اور یہ مبارک سلسلہ تا قیام دنیا قائم رہے گا۔ کیوں کہ آپ پر نازل ہونے والا قرآن مجید وحی متلو اور حدیث شریف وحی غیرمتلو تاقیام دنیا قائم رہنے والی چیزیں ہیں۔ پس دنیا میں آنے والے انسان ان سے فیوض حاصل کرتے ہی رہیں گے۔ اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہے اور یہ بھی کہ قرآن وحدیث کے معلمین و متعلمین کو بہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ سخی،جواد وسیع القلب ہونا چاہئیے کہ ان کی شان کا یہی تقاضہ ہے۔خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ جود و سخاوت ہی کا مہینہ ہے کہ اس میں ایک نیکی کا ثواب کتنے ہی درجات حاصل کر لیتا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں خصوصیت کے ساتھ اپنی ظاہری و باطنی سخاوتوں کے دریا بہا دیتے تھے۔

سند حدیث: پہلا موقع ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سند حدیث میں تحویل فرمائی ہے۔ یعنی امام زہری تک سند پہنچا دینے کے بعد پھر آپ دوسری سندکی طرف لوٹ آئے ہیں اور عبدان پہلے استاد کے ساتھ اپنے دوسرے استاد بشر بن محمد کی روایت سے بھی اس حدیث کو نقل فرمایا ہے اور زہری پر دونوں سندوں کو یکجا کر دیا۔ محدثین کی اصطلاح میں لفظ ح (مثلاً جو اس سند میں آیا ہے «عن الزهري. ح وحدثنا بشر بن محمد») سے یہی تحویل مراد ہوتی ہے۔ اس سے تحویل سند اور سند میں اختصار مقصود ہوتا ہے۔ آگے اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہیں گے۔ بقول علامہ قسطلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند میں روایت حدیث کی مختلف اقسام تحدیث، اخبار، عنعنہ، تحویل سب جمع ہو گئی ہیں۔جن کی تفصیلات مقدمہ میں بیان کی جائیں گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6  
6. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے، خصوصاً رمضان میں جب حضرت جبریل سے آپ کی ملاقات ہوتی تو بہت سخاوت کرتے۔ اور حضرت جبریل رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ ان کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ صدقہ کرنے میں کھلی (تیز) ہوا سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ پہلی حدیث میں نزول وحی کی جگہ کا تعین تھا کہ وحی کا آغاز غارحرا میں ہوا اور اس حدیث میں ابتدائے وحی کا وقت بتایا گیا ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک ہے۔
اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کسی معمولی چیز کے لیے زمان ومکان کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ اس قسم کا اہتمام کسی اہم اور بلند پایہ چیز ہی کے لیے کیا جاتا ہے۔

سخاوت کسی کے سوال کرنے پر دل کے نرم ہونے کی وجہ سے کوئی چیز دینے کا نام ہے جبکہ (جُود)
کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جس کے لیے مناسب ہو، اس کے مانگے بغیر ہی اسے دے د ینا۔
بعض نے اس کا فرق یہ کیا ہے کہ سخاوت کا مطلب کچھ دے دینا اور کچھ اپنے لیے رکھ لینا ہے جبکہ جود کے معنی یہ ہیں کہ زیادہ دے دینا اورتھوڑا بہت اپنے لیے رکھنا۔
(الفروق اللغوية، ص: 196)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی (أَجْوَدَ النَّاسِ)
تھے کیونکہ یہ ہر شخص کو وہی کچھ دیتے جو اس کے مناسب حال ہوتا، چنانچہ فقیروں کو مال دیتے، تشنگان علوم کی علمی پیاس بجھاتے اور گم کردہ راہوں کو سیدھا راستہ دکھاتے الغرض حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے جُود کے تین درجے تھے:
(الف)
۔
عام طور پر بھی آپ تمام لوگوں سے زیادہ صاحب جودوسخا تھے۔
(ب)
۔
رمضان المبارک میں یہ جودوکرم اور بڑھ جاتا تھا۔
(ج)
۔
رمضان کی راتیں مذید اس شان جودوکرم میں اضافے کا باعث ہوتیں جبکہ آپ جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات فرماتے۔
اس دوران میں کسی سائل کو تہی دامن اور مایوس واپس نہ کرتے حتیٰ کہ اگر قرض بھی لینا پڑتا تو بھی خیرات کا فیض عام جاری رکھنے کے لیے ایسا کرگزرتے تھے۔

(الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ)
اس ہوا کو کہتے ہیں۔
جوبڑی تیز چلتی ہے اور بارش کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جودوسخا کو اس قسم کی بارش لانے والی ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بہت ہی مناسب ہے، چنانچہ جس طرح باران رحمت سے بنجر اور بے آباد زمین سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے اسی طرح آپ کے جودوسخا سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہوئی اور ہر طرف رشد و ہدایت کے دریا موج زن ہوئے۔
الغرض آپ کے روحانی کمالات سے تمام کائنات فیض یاب ہوئی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

اس حدیث میں سخاوت کے متعلق شوق دلایا گیا ہے، خاص طور پر رمضان المبارک میں دل کھول کراپنا مال خرچ کرنا چاہیے، نیز جب نیکو کار اوراہل خیر سے ملاقات ہو تو بھی فیاضی اوردریا دلی کا مظاہرہ کرناچاہیے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہیے اور یہ تلاوت تمام اوراد و اذکار سے افضل اوراعلیٰ ہے۔
(فتح الباري: 1؍31)

(مُدَارَسَه)
یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں نازل شدہ قرآن پڑھتےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے، پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام اس کا سماع فرماتے۔
گویا باری باری قرآن مجید پڑھتے جسے ہمارے ہاں دَور کرنا کہا جاتا ہے۔
آخری سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے دومرتبہ دور کیا تاکہ مجموعی طور پر پورے قرآن کی یاد دہانی ہوجائے، نیز یاد رہے کہ یہ آخری دور اسی ترتیب سے ہوا تھا جس ترتیب سے آج ہمارے ہاں قرآن موجود ہے کیونکہ اس آخری دور کے وقت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔
انھوں نے بعد میں اسی ترتیب سے لکھا جس ترتیب سے انھوں نے سنا تھا۔
واضح رہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترتیب نزولی کے مطابق قرآن جمع کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترتیب ان کےعلاوہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6