صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
70. بَابُ الْفَرْقِ:
باب: (سر میں بیچوں بیچ بالوں میں) مانگ نکالنا۔
حدیث نمبر: 5917
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ، وَكَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدِلُونَ أَشْعَارَهُمْ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ، فَسَدَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاصِيَتَهُ ثُمَّ فَرَقَ بَعْدُ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کسی مسئلہ میں کوئی حکم معلوم نہ ہوتا تو آپ اس میں اہل کتاب کے عمل کو اپناتے تھے۔ اہل کتاب اپنے سر کے بال لٹکائے رکھتے اور مشرکین مانگ نکالتے تھے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی (اہل کتاب کی موافقت میں) پہلے سر کے بال پیشانی کی طرف لٹکاتے لیکن بعد میں آپ بیچ میں سے مانگ نکالنے لگے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3632  
´کان کی لو سے بال نیچے رکھنے اور چوٹیاں رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکائے رکھتے تھے، اور مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی پیشانی پر بال لٹکائے رکھتے، پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3632]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مکہ مکرمہ میں مشرکین کی اکثریت تھی۔
رسول اللہ ﷺ ان سے امتیاز کے لئے اہل کتا ب کا انداز اختیار فرما لیتے تھے۔
جب رسول ﷺ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ میں موجود کثیر اہل کتاب سے فرق کرنے کے لئے دوسرا انداز اختیار فرمایا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کا ہر عمل وحی کی روشنی میں ہوتا تھا اس لئے بال مانگ نکالے بغیر کھلے چھوڑنا منسوخ ہے اور مانگ نکالنا مسنون اور ثواب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3632   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4188  
´بال میں مانگ نکالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کا «سدل» کرتے یعنی انہیں لٹکا ہوا چھوڑ دیتے تھے، اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن باتوں میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے اسی لیے آپ اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکا چھوڑ دیتے تھے پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4188]
فوائد ومسائل:
واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا مانگ نکالنا اللہ کے حکم سےتھا، اگرچہ مشرکین بھی نکالا کرتے تھے۔
پس مشرکین اور کفار کی وہی مشابہت نا جائز ہے جو ان کی دینی اور خاص قومی علامت ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4188   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5917  
5917. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کو کسی مسئلے میں کوئی حکم معلوم نہ ہوتا تو آپ اس میں اہل کتاب کی موافقت کرتے تھے اہل کتاب اپنے بالوں کو لٹکائے رکھتے اور مشرکین مانگ نکالتے تھے، چنانچہ نبی ﷺ نے اپنی پشانی کے بال لٹکائے لیکن اس کے بعد آپ ﷺ مانگ نکالتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5917]
حدیث حاشیہ:
ٹھکانے سے سر کے بال مسنون طریقہ پر رکھنا ہر طرح سے بہتر ہے مگر آج کل جو فیشن کی وبا چلی ہے خاص طور پر ہپی ازم بال رکھ کر صورت کو بگاڑ نے کا جو فیشن چل پڑا ہے یہ حددرجہ گناہ اور خلقت الٰہی کو بگاڑنا اور کفار کے ساتھ مشابہت رکھنا ہے۔
نوجوانان اسلام کو ایسی غلط روش کے خلاف جہاد کی سخت ضرورت ہے۔
ایسا فیشن خود غیروں کی نظر میں بھی معیوب ہے، اس لیے مسلمانوں کو ہر گز اسے اختیار نہ کرنا چاہیئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5917   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5917  
5917. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کو کسی مسئلے میں کوئی حکم معلوم نہ ہوتا تو آپ اس میں اہل کتاب کی موافقت کرتے تھے اہل کتاب اپنے بالوں کو لٹکائے رکھتے اور مشرکین مانگ نکالتے تھے، چنانچہ نبی ﷺ نے اپنی پشانی کے بال لٹکائے لیکن اس کے بعد آپ ﷺ مانگ نکالتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5917]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگ نکالنا، اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا۔
اگرچہ مشرکین بھی مانگ نکالا کرتے تھے لیکن آپ نے ان کی موافقت یا اتباع کرتے ہوئے مانگ نہیں نکالی تھی، اس لیے کفار و مشرکین کی وہی مشابہت ناجائز ہے جو ان کا دینی شعار اور خاص قومی علامت ہو، ہاں ٹیڑھی مانگ نکالنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے، بلکہ مغربی تہذیب کے برے اثرات ہیں، لہذا مسلمانوں کو اس عادت بد سے باز رہنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5917