صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
83. بَابُ الْوَصْلِ فِي الشَّعَرِ:
باب: بالوں میں الگ سے بناوٹی چٹیا لگانا اور دوسرے بال جوڑنا۔
حدیث نمبر: 5935
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمِّي، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي أَنْكَحْتُ ابْنَتِي ثُمَّ أَصَابَهَا شَكْوَى فَتَمَرَّقَ رَأْسُهَا وَزَوْجُهَا يَسْتَحِثُّنِي بِهَا، أَفَأَصِلُ رَأْسَهَا؟" فَسَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ".
مجھ سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، کہا ہم سے فضل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میری والدہ صفیہ بنت شیبہ نے بیان کیا، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ میں نے اپنی لڑکی کی شادی کی ہے اس کے بعد وہ بیمار ہو گئی اور اس کے سر کے بال جھڑ گئے اور اس کا شوہر مجھ پر اس کے معاملہ میں زور دیتا ہے۔ کیا میں اس کے سر میں مصنوعی بال لگا دوں؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصنوعی بال جوڑنے والیوں اور جڑوانے والیوں کو برا کہا، ان پر لعنت بھیجی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1988  
´بالوں کو جوڑنے اور گودنا گودنے والی عورتوں پر وارد وعید کا بیان۔`
اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: میری بیٹی دلہن ہے، اور اسے چیچک کا عارضہ ہوا جس سے اس کے بال جھڑ گئے، کیا میں اس کے بال میں جوڑ لگا دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بالوں کو جوڑنے والی اور جوڑوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1988]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  میری بیٹی دلھن ہے۔
اس کایہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دلہن بننے والی ہے اور عنقریب اس کی شادی ہونے والی ہے۔
اور یہ مطلب بھی ہو سکتاہےکہ ابھی ابھی شادی ہوئی ہے اور خطرہ ہے کہ خاوند کا دل اس سے بیزار ہو جائے۔

(2)
رسول اللہ ﷺنے اسےاس عذر کے باوجود بال ملانے کی اجازت نہ دی، حالانکہ خاوند کو خوش کرنے کے لیے زیب و زینت شرعاً مطلوب ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کراہت کی نہیں بلکہ یہ عمل حرام ہے۔
لعنت سے بھی حرمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ صرف مکروہ کام پرلعنت نہیں کی جاتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1988   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5935  
5935. سیدہ اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ ک‬ی روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: میں نے اپنی بیٹی کی شادی کی ہے پھر اسے بیماری لاحق ہوئی تو اس کے سر کے تمام بال جھڑ گئے ہیں۔ اس کا شوہر مجھے ابھارتا رہتا ہے تو کیا میں اس کے سر پر مصنوعی بال لگا دوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے مصنوعی بال لگانے والی، اور لگوانے والی دونوں پر لعنت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5935]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام ابوداود رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ واصلہ سے مراد وہ عورت ہے جو دوسری عورتوں کے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگائے اور مستوصلہ وہ عورت ہے جس کے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگائے جائیں۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4170) (2)
اگر کسی عورت کے بال بیماری کی وجہ سے جھڑ گئے ہوں تو اسے بھی پیوندکاری کرنے کی اجازت نہیں، خواہ اس کا خاوند اس پرزور تقاضا ہی کیوں نہ کرے۔
حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ دھاگوں سے بنی ہوئی موباف، یعنی پراندی استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4171)
مقام افسوس ہے کہ آج کل مصنوعی داڑھیاں بھی بازار سے دستیاب ہیں اور داڑھی منڈوانے والے خطیب حضرات بوقت ضرورت انہیں استعمال کرتے ہیں جیسا کہ مصر اور ترکی کی بعض مساجد میں ایسا ہوتا ہے۔
العیاذ باللہ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5935