صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
84. بَابُ الْمُتَنَمِّصَاتِ:
باب: چہرے پر سے روئیں اکھاڑنے والیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 5939
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ:" لَعَنَ عَبْدُ اللَّهِ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ"، فَقَالَتْ أُمُّ يَعْقُوبَ: مَا هَذَا؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" وَمَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ وَفِي كِتَابِ اللَّهِ" قَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُهُ، قَالَ:" وَاللَّهِ لَئِنْ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا سورة الحشر آية 7".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خوبصورتی کے لیے گودنے والیوں، چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور سامنے کے دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والیوں جو اللہ کی پیدائش میں تبدیلی کرتی ہیں، ان سب پر لعنت بھیجی تو ام یعقوب نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا آخر میں کیوں نہ ان پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے اور کتاب اللہ میں اس پر لعنت موجود ہے۔ ام یعقوب نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے پورا قرآن مجید پڑھ ڈالا اور کہیں بھی ایسی کوئی آیت مجھے نہیں ملی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تم نے پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم کو یہ آیت معلوم نہیں «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا‏» یعنی اور جو کچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے بھی تمہیں منع کریں اس سے رک جاؤ۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1989  
´بالوں کو جوڑنے اور گودنا گودنے والی عورتوں پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں، بال اکھیڑنے والیوں، خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں، اور اللہ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے، قبیلہ بنو اسد کی ام یعقوب نامی ایک عورت کو یہ حدیث پہنچی تو وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ ایسا ایسا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے، اور یہ بات تو اللہ تعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1989]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  بال نوچنے سے مراد چہرے وغیرہ کے بال ہیں جو عورتوں کے جسم پر اچھے نہیں لگتے انہیں اکھاڑنا اور تھریڈنگ وغیرہ شرعاً منع ہے۔
ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کا رنگ اس طرح کا کر لیا جائے کہ نمایاں محسوس نہ ہوں-
(2)
  بعض افراد کے ابر و درمیان سے ملے ہوئے ہو تے ہیں وہ انہیں درمیان سے مونڈ کر فاصلہ پیدا کرلیتے ہیں، یا عورتیں ابر و باریک کرنے کے لیے انہیں (اوپر یا نیچے سے)
مونڈ دیتی ہیں۔
یہ سب منع ہے، اور اسی ممنوع کام میں شامل ہے-
(3)
  عربوں میں یہ بات بھی حسن شمار ہوتی تھی کہ سامنے کے دانت، باہم ملے ہو ئے نہ ہوں۔
اس مقصد کے لیے عورتیں دانتوں کو درمیان سے رگڑ کرفاصلہ پیدا کر لیتی تھیں، یہ عمل جائز نہیں۔

(4)
  مردوں کا ڈاڑھی کا خط بنوانا یعنی رخساروں پر سے مونڈ دینا بھی اس قسم کا عمل ہے کیونکہ پوری ڈاڑہی رکھنا شرعا مطلوب ہے اور رخساروں کے بالوں کو ڈاڑھی سے خارج کرنے کی کوئی قابل اعتماد دلیل موجود نہیں-
(5)
  عالم آدمی کو اپنے گھر والوں کے اعمال کا خاص طور پر خیا ل رکھنا چاہیے کیوکہ اس کی غلطی دوسروں کےلیے جواز بن جاتى ہے-
(6)
  حدیث کے مسائل قرآن مجید کے برابر اہمیت رکھتے ہیں جو حدیث محدثین کے اصول کےمطابق صحیح ہو، اس پر عمل کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح قرآ ن کےعمل ضروری نہیں ہے۔

(7)
  اگر عالم کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اسے چاہیے فوراً اس کا ازالہ کرے-
(8)
  صحابہ کرام کی نظر میں احکام شریعت کی اس قدر اہمیت تھی کہ ان کی خلاف درزی پر وہ بیوی کو طلاق بھی دے سکتے تھے۔

(9)
  جو عورت نیکی کی راہ میں رکاوٹ بنے اور سمجھانے پر بھی باز نہ آئے، اس کی بات ماننے کی بجائے اس سے الگ ہو جانا بہتر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1989   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1206  
´سود خوری کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1206]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے سود کی حرمت سے شدّت ظاہرہوتی ہے کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ گواہوں اور معاہدہ لکھنے والوں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے،
حالانکہ مؤخرالذکردونوں حضرات کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا،
لیکن صرف یک گونہ تعاون کی وجہ سے ہی ان کوبھی ملعون قراردے دیا گیا،
گویا سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اورغضب الٰہی کا باعث ہے کیونکہ سود کی بنیاد خود غرضی،
دوسروں کے استحصال اورظلم پرقائم ہوتی ہے اوراسلام ایسا معاشرہ تعمیرکرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد بھائی چارہ،
اخوت ہمدردی،
ایثار اور قربانی پرہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1206   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3333  
´سود کھانے اور کھلانے والے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب (لکھنے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3333]
فوائد ومسائل:
سود لینا دینا اور باطل کا کسی طرح سے تعاون کرنا حرام ہے۔
بالخصوص سودی معاملہ لعنت کا کام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3333   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5939  
5939. حضرت علقمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے خوبصورتی کے لیے جسم میں سرمہ بھرنے والی، ابرو کے بال اکھاڑنے والی، دانتوں کوکشادہ کرنے والی اور اللہ کی خلقت کو بدلنے والی عورتوں پر لعنت کی تو ام یعقوب نے کہا: یہ کیا بات ہوئی؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: آخر میں ان پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر اللہ کے رسول نے لعنت کی ہے اور کتاب اللہ میں بھی موجود ہے؟ ام یعقوب نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو پورا قرآن مجید پڑھ ڈالا ہے مجھے تو کہیں بھی یہ نہیں ملا،اللہ کی قسم اگر تم بغور قرآن پڑھا ہوتا تو یہ تجھے ضرور مل جاتا۔ (قرآن کریم میں ہے:) جو چیز تمہیں رسول دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5939]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام ابوداود رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نامصہ وہ عورت ہے جو ابروؤں کے بال نوچتی ہے تاکہ وہ باریک ہو جائیں اور مُتنمصه وہ عورت ہے جو یہ کام کروائے۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4170) (2)
ایک روایت میں ہے کہ جس عورت نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تھا وہ قبیلۂ بنو اسد سے تعلق رکھتی تھی اور اسے قرآنی معلومات کافی حد تک تھیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب آیت کریمہ پڑھی تو وہ مطمئن ہو گئی لیکن اس نے کہا کہ میں ان ممنوعہ چیزوں میں سے کئی چیزیں تمہاری بیوی پر بھی دیکھتی ہوں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اندر جاؤ اور دیکھ لو، چنانچہ وہ گئی اور پھر باہر آ گئی۔
انہوں نے پوچھا:
کیا دیکھا ہے؟ عورت نے کہا:
میں نے کچھ نہیں دیکھا۔
تو انہوں نے فرمایا:
اگر ایسا ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ نہ ہوتی۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4169) (3)
بہرحال دعوت دین کا کام کرنے والوں کو لوگ انتہائی باریک نظر سے دیکھتے ہیں اور چاہتے کہ وہ اپنی گفتار کے مطابق کردار کو ڈھالیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس معیار پر پورے اترتے تھے اور انہوں نے اپنے ایمانی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان کی بیوی خلاف شریعت کاموں کی مرتکب ہوتی تو ہمارے ساتھ نہ رہ سکتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5939