صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
87. بَابُ الْمُسْتَوْشِمَةِ:
باب: گدوانے والی عورت کی برائی کا بیان۔
حدیث نمبر: 5948
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ، مَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ گودنے والیوں پر اور گدوانے والیوں پر، بال اکھاڑنے والیوں پر اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کرنے والیوں پر جو اللہ کی پیدائش میں تبدیلی کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے پھر میں بھی کیوں نہ ان پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے اور وہ کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1989  
´بالوں کو جوڑنے اور گودنا گودنے والی عورتوں پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں، بال اکھیڑنے والیوں، خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں، اور اللہ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے، قبیلہ بنو اسد کی ام یعقوب نامی ایک عورت کو یہ حدیث پہنچی تو وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ ایسا ایسا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے، اور یہ بات تو اللہ تعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1989]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  بال نوچنے سے مراد چہرے وغیرہ کے بال ہیں جو عورتوں کے جسم پر اچھے نہیں لگتے انہیں اکھاڑنا اور تھریڈنگ وغیرہ شرعاً منع ہے۔
ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کا رنگ اس طرح کا کر لیا جائے کہ نمایاں محسوس نہ ہوں-
(2)
  بعض افراد کے ابر و درمیان سے ملے ہوئے ہو تے ہیں وہ انہیں درمیان سے مونڈ کر فاصلہ پیدا کرلیتے ہیں، یا عورتیں ابر و باریک کرنے کے لیے انہیں (اوپر یا نیچے سے)
مونڈ دیتی ہیں۔
یہ سب منع ہے، اور اسی ممنوع کام میں شامل ہے-
(3)
  عربوں میں یہ بات بھی حسن شمار ہوتی تھی کہ سامنے کے دانت، باہم ملے ہو ئے نہ ہوں۔
اس مقصد کے لیے عورتیں دانتوں کو درمیان سے رگڑ کرفاصلہ پیدا کر لیتی تھیں، یہ عمل جائز نہیں۔

(4)
  مردوں کا ڈاڑھی کا خط بنوانا یعنی رخساروں پر سے مونڈ دینا بھی اس قسم کا عمل ہے کیونکہ پوری ڈاڑہی رکھنا شرعا مطلوب ہے اور رخساروں کے بالوں کو ڈاڑھی سے خارج کرنے کی کوئی قابل اعتماد دلیل موجود نہیں-
(5)
  عالم آدمی کو اپنے گھر والوں کے اعمال کا خاص طور پر خیا ل رکھنا چاہیے کیوکہ اس کی غلطی دوسروں کےلیے جواز بن جاتى ہے-
(6)
  حدیث کے مسائل قرآن مجید کے برابر اہمیت رکھتے ہیں جو حدیث محدثین کے اصول کےمطابق صحیح ہو، اس پر عمل کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح قرآ ن کےعمل ضروری نہیں ہے۔

(7)
  اگر عالم کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اسے چاہیے فوراً اس کا ازالہ کرے-
(8)
  صحابہ کرام کی نظر میں احکام شریعت کی اس قدر اہمیت تھی کہ ان کی خلاف درزی پر وہ بیوی کو طلاق بھی دے سکتے تھے۔

(9)
  جو عورت نیکی کی راہ میں رکاوٹ بنے اور سمجھانے پر بھی باز نہ آئے، اس کی بات ماننے کی بجائے اس سے الگ ہو جانا بہتر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1989   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1206  
´سود خوری کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1206]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے سود کی حرمت سے شدّت ظاہرہوتی ہے کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ گواہوں اور معاہدہ لکھنے والوں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے،
حالانکہ مؤخرالذکردونوں حضرات کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا،
لیکن صرف یک گونہ تعاون کی وجہ سے ہی ان کوبھی ملعون قراردے دیا گیا،
گویا سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اورغضب الٰہی کا باعث ہے کیونکہ سود کی بنیاد خود غرضی،
دوسروں کے استحصال اورظلم پرقائم ہوتی ہے اوراسلام ایسا معاشرہ تعمیرکرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد بھائی چارہ،
اخوت ہمدردی،
ایثار اور قربانی پرہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1206   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3333  
´سود کھانے اور کھلانے والے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب (لکھنے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3333]
فوائد ومسائل:
سود لینا دینا اور باطل کا کسی طرح سے تعاون کرنا حرام ہے۔
بالخصوص سودی معاملہ لعنت کا کام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3333   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5948  
5948. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہاللہ تعالٰی نے سرمہ بھرنے والی، سرمہ بھروانے والی، بھویں باریک کروانے والی، خوبصورتی کے لیے دانت کشادہ کرنے والی، جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والی ہیں ان تمام عورتوں پر لعنت کی ہے۔ پھر میں بھی کیوں نہ ان عورتوں پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور یہ اللہ کی کتاب میں بھی موجود ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5948]
حدیث حاشیہ:
آیت شریف وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر: 7)
کی طرف اشارہ ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو حکم فرمائیں اسے بجا لاؤ اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اس کے تحت اجمالی طور پر سارے اوامر اور نواہی داخل ہیں آج کا فیشن جو مردوں اور عورتوں نے اپنایا ہے جو عریانیت کا مرقع ہے وہ سب اس لعنت کے تحت داخل ہے۔
سند میں مذکور علقمہ بن وقاص لیثی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پیدا ہوئے اورغزوئہ خندق میں شریک ہوئے، عبدالملک بن مروان کے عہد میں وفات پائے رحمہ اللہ تعالیٰ۔
کتاب اللہ میں مذکور ہونے سے وہ آیت مراد ہے جس میں ہے وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت تم کو دیں اسے قبول کر لو اور جن کاموں سے آپ منع فرمائیں ان سے رک جاؤ۔
اس میں جملہ اوامر اور نواہی داخل ہیں حدیث میں مذکورہ نواہی بھی اسی آیت کے ذیل میں ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5948   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5948  
5948. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہاللہ تعالٰی نے سرمہ بھرنے والی، سرمہ بھروانے والی، بھویں باریک کروانے والی، خوبصورتی کے لیے دانت کشادہ کرنے والی، جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والی ہیں ان تمام عورتوں پر لعنت کی ہے۔ پھر میں بھی کیوں نہ ان عورتوں پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور یہ اللہ کی کتاب میں بھی موجود ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5948]
حدیث حاشیہ:
(1)
سوئی یا کسی نوک دار چیز سے جسم کے کسی حصے کو چھید کر کوئی نام یا کسی کی تصویر بنا کر وہاں سرمہ یا نیل وغیرہ چھڑکا جاتا ہے، پھر زخم مندمل ہونے کے بعد وہ نام یا تصویر مستقل طور پر باقی رہتی ہے۔
عربی زبان میں اس عمل کو وشم کہا جاتا ہے۔
یہ عمل کرنا اور کرانا شرعاً حرام ہے۔
(2)
اگر وشم کے بغیر کسی مرض کا علاج ممکن نہ ہو تو اس عمل کے جائز ہونے کی گنجائش ہے۔
یاد رہے کہ اس عمل کی اجرت حرام ہے کیونکہ جو کام حرام ہو اس کی اجرت بھی حرام ہوتی ہے۔
اگر کسی زندہ یا مرنے والے شخص کے جسم پر اس طرح کا نشان ہو تو اس کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
اگر کسی نقصان کا خطرہ ہو تو اسے باقی رہنے دیا جائے، البتہ دونوں صورتوں میں توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5948