صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
91. بَابُ مَا وُطِئَ مِنَ التَّصَاوِيرِ:
باب: اگر مورتیں پاؤں کے تلے روندی جائیں تو ان کے رہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 5954
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ، وَمَا بِالْمَدِينَةِ يَوْمَئِذٍ أَفْضَلُ مِنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ وَقَدْ سَتَرْتُ بِقِرَامٍ لِي عَلَى سَهْوَةٍ لِي فِيهَا تَمَاثِيلُ، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَتَكَهُ، وَقَالَ:" أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ" قَالَتْ: فَجَعَلْنَاهُ وِسَادَةً أَوْ وِسَادَتَيْنِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے سنا، ان دنوں مدینہ منورہ میں ان سے بڑھ کر عالم فاضل نیک کوئی آدمی نہیں تھا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (قاسم بن ابی بکر) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر (غزوہ تبوک) سے تشریف لائے تو میں نے اپنے گھر کے سائبان پر ایک پردہ لٹکا دیا تھا، اس پر تصویریں تھیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو اسے کھینچ کر پھینک دیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ لوگ گرفتار ہوں گے جو اللہ کی مخلوق کی طرح خود بھی بناتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے پھاڑ کر اس پردہ کی ایک یا دو توشک بنا لیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2151  
´پیشوں اور صنعتوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا جن کو تم نے بنایا ہے، ان میں جان ڈالو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2151]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  جاندار چیزوں کی تصویر بنانا حرام ہے، خواہ تصویر کاغذ، دیوار یا کپڑے وغیرہ پر بنائی جائے، یا مجسم شکل میں مٹی، پتھ، چینی یا پلاسٹک وغیرہ سے بنائی جائے۔

(2)
  بعض لوگ کہتے ہیں کہ تصویر کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پوجا کی جاتی تھی۔
یہ درست نہیں کیونکہ پوجا تو درختوں، ستاروں، سورج، چاند اور آگ کی بھی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان چیزوں کا استعمال اور ان سے فائدہ اٹھانا حرام نہیں۔

(3)
  یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ سابقہ شریعتوں میں تصویر سازی اور مجسمہ سازی کی اجازت تھی، اگر یہ دعویٰ درست بھی ہو تو بھی کسی چیز کے سابقہ شریعت میں جائز ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے لیے بھی جائز ہے جب تک ہمارے پاس یہ واضح دلیل موجود نہ ہو کہ وہ ہماری شریعت میں بھی جائز ہے۔

(4)
  موجودہ دور میں تصویر کے بعض فوائد بیان کیے جاتے ہیں۔
مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے جائز متبادل ذرائع تلاش کریں، خاص طور پر جب کہ تصویروں (فلم، ٹی وی، وی سی آر وغیرہ)
کی وجہ سے معاشرے میں فحاشی، کافرانہ تہذیب کے فروغ اور کثرت جرائم کے جو خوفناک اور گھناؤنے نتائج سامنے آرہے ہیں، ان کے مقابل ان فوائد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

(5)
  تصویر بنانے والوں کو جان ڈالنے کا حکم انہیں شرمندہ کرنے اور ان کے جرم کی شناعت واضح کرنے کے لیے دیا جائے گا، اس طرح یہ حکم بھی اصل میں ایک عذاب ہی ہوگا۔

(6)
  منع کے اس حکم میں ہاتھ سے بنی ہوئی، کیمرے سے بنی ہوئی یا پریس میں چھپی ہوئی سب تصویرں شامل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2151   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5954  
5954. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر سے واپس آئے تو میں نے اپنے گھر کے سائبان پر ایک پردہ لٹکا دیا جس پر تصویریں تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو اسے کھینچ کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا: قیامت کے دن سب سے زیادہ سنگین عذاب میں وہ لوگ گرفتار ہوں گے جو اللہ تعالٰی کی پیدا کی ہوئی چیزوں کی مشابہت کرتے ہیں۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ ہم نے (اس پردے کو پھاڑ کر) اس کے لیے ایک یا دو تکیے بنا لیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5954]
حدیث حاشیہ:
یا ایک دو تکئے بنا لیے دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ ہم ان پر بیٹھا کرتے تھے۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان پر آرام فرمایا کرتے تھے، باب کا مطلب اسی سے ظاہر ہے۔
حضرت علی بن عبداللہ مدینی حضرت امام بخاری کے استاد محترم حافظ حدیث ہیں۔
امام نسائی نے سچ کہا کہ ان کی پیدائش ہی خدمت حدیث کے لیے ہوئی تھی۔
ذی قعدہ سنہ232ھ میں بعمر سنہ 73 سال انتقال فرمایا۔
رحمه اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5954