صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
93. بَابُ كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ فِي التَّصَاوِيرِ:
باب: جہاں تصویر ہو وہاں نماز پڑھنی مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 5959
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ قِرَامٌ لِعَائِشَةَ سَتَرَتْ بِهِ جَانِبَ بَيْتِهَا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمِيطِي عَنِّي، فَإِنَّهُ لَا تَزَالُ تَصَاوِيرُهُ تَعْرِضُ لِي فِي صَلَاتِي".
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پردہ تھا۔ اسے انہوں نے گھر کے ایک کنارے پر لٹکا دیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پردہ نکال ڈال، اس کی مورت اس نماز میں میرے سامنے آتی ہیں اور دل اچاٹ ہوتا ہے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 192  
´نماز کے سامنے سے خود ہٹ جانا چاہئیے`
«. . . وعنه قال: كان قرام لعائشة رضي الله عنها،‏‏‏‏ سترت به جانب بيتها،‏‏‏‏ فقال لها النبي صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏اميطي عنا قرامك هذا،‏‏‏‏ فإنه لا تزال تصاويره تعرض لي في صلاتي . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک زیبائشی چادر (برائے پردہ) تھی جو انہوں نے اپنے حجرے کے ایک طرف لٹکا رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ زیبائشی چادر کو میرے سامنے سے ہٹا دو کیونکہ اس کی تصویریں میری نماز میں میرے سامنے آتی ہیں (نماز میں خلل اندازی کا باعث بنتی ہیں) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 192]

لغوی تشریح:
«قِرَام» قاف کے نیچے کسرہ اور را پر تخفیف ہے۔ مختلف رنگوں والا باریک کپڑا۔
«أَمِيطِي» مجھ سے دور کردو۔
«تَصَاوِيرُهُ» اس کی علامات اور نقوش۔ ضروری نہیں کہ یہ نقوش حیوانات کے ہوں کہ جسے حیوان اور انسان کی تصویر کے جواز کی دلیل بنا لیا جائے۔
«تَعْرضُ» ظاہر اور نمایاں ہوتے رہے ہیں۔
«فِي قِصَّةِ أَنْبِجَانِيَة» ہمزہ مفتوح، نون ساکن، با کے نیچے کسرہ اور جیم مخفف ہے۔ الف کے بعد والا نون مکسور اور یائے نسبتی پر تشدید ہے، یعنی اونی چادر بغیر نقوش کے۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ ابوجہم رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک چادر تحفے کے طور پر پیش کی، اس چادر میں کچھ نقوش و اعلام تھے اور وہ تھی بھی باریک۔ آپ نے اسے پہن کر یا اوڑھ کر نماز ادا فرمائی تو آپ کی نظر اعلام و نقوش کی جانب مبذول ہو گئی۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس چادر کو ابوجہم ہی کے پاس لے جاؤ اور اس سے مجھے أنبجانيه چادر لا دو۔ آپ نے ابوجہم رضی اللہ عنہ کی خمیصۃ (نقش دار چادر) کے بدلے میں بغیر نقوش والی أنبجانية چادر اسی سے طلب فرمائی تاکہ ایسا نہ ہو کہ ابوجہم رضی اللہ عنہ کی دل شکنی ہو کہ اس کے تحفے کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کر دیا ہے۔
«فَإِنَّهَا أَنهَتنِي عَنْ صَلَاتِي» یعنی ابوجہم رضی اللہ عنہ کی چادر نے مجھے غافل اور مشغول کر دیا
«لهي يلهي» ہا کے نیچے کسرہ بمعنی غافل کر دینا اور یہ «لها يلهو لهوا» سے ماخوذ نہیں ہے جس کے معنی کھیلنے کے آتے ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر وہ چیز جس سے نمازی کی توجہ ہٹ کر اس چیز کی طرف ہو جانے کا اندیشہ ہو اسے دور کرنا چاہیئے تا کہ وہ نماز میں خلل انداز نہ ہو۔
➋ اگر اسے دور کرنا اور ہٹانا بس میں نہ ہو تو خود سامنے سے ہٹ جانا چاہئیے تا کہ خشوع و خضوع اور توجہ میں کمی پیدا نہ ہو۔

وضاحت:
(سیدنا ابوجہم رضی اللہ عنہ) یہ ابن حذیفہ بن غانم قرشی العدوی ہیں۔ عدی قبیلہ میں سے ہونے کی وجہ سے عدوی کہلائے۔ ان کا اصل نام عامر یا عبید ہے۔ فتح مکہ کے سال اسلام قبول کیا۔ عمر رسیدہ لوگوں میں سے تھے۔ جب قریش نے کعبہ کو تعمیر کیا، یہ اس موقع پر موجود تھے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے تعمیر کعبہ کے وقت بھی موجود تھے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے ابتدائی ایام میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 192   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5959  
5959. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس ایک پردہ تھا جو انہوں نے گھر کے ایک کنارے پر لٹکا رکھا تھا۔ نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: اس پردے کو مجھ سے دور کردو کیونکہ اس کی تصاویر میری نماز میں میرے سامنے آتی رہتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5959]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلے ایک حدیث میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے کیونکہ گھر میں ایک تصویردار پردہ تھا، جبکہ اس حدیث کے مطابق تصویروں والے پردے کی موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی، ان دونوں احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جس پردے کی موجودگی میں آپ گھر میں داخل نہیں ہوئے تھے وہ جاندار کی تصاویر تھیں اور اس حدیث میں صرف نقش و نگار والے پردے کا ذکر ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں خضوع و خشوع ہونا چاہیے اور جو چیز خشوع کے لیے رکاوٹ ہو اسے دور کرنا ضروری ہے۔
(فتح الباري: 481/10)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب:
إن صلی في ثوب مصلب أو تصاوير هل تفسد صلاته؟)

اگر کسی نے صلیب یا تصویر والے کپڑے میں نماز پڑھی تو کیا اس کی نماز فاسد ہے؟ (صحیح البخاري، الصلاة، باب: 15)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5959