صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
18. بَابُ رَحْمَةِ الْوَلَدِ وَتَقْبِيلِهِ وَمُعَانَقَتِهِ:
باب: بچے کے ساتھ رحم و شفقت کرنا، اسے بوسہ دینا اور گلے سے لگانا۔
حدیث نمبر: 5998
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: تُقَبِّلُونَ الصِّبْيَانَ، فَمَا نُقَبِّلُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَأَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں، ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3665  
´باپ کو اپنے بچوں خاص کر بیٹیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو ان اعرابیوں (خانہ بدوشوں) نے کہا: لیکن ہم تو اللہ کی قسم! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3665]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اپنے بچوں سے پیار کرنا شفقت و محبت کی علامت ہے۔

(2)
دل اللہ کے قبضے میں ہیں۔
نبی ﷺ وعظ و نصیحت کرتے تھے اور حق کو واضح کر کے بیان فرماتے تھے۔
ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3665   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5998  
5998. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: تم لوگ بچوں کا بوسہ لیتے ہو؟ ہم تو ان کا بوسہ نہیں لیتے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تیرے دل سے اللہ تعالٰی نے جذبہ رحمت نکال دیا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5998]
حدیث حاشیہ:
(1)
ممکن ہے کہ دیہاتی سے مراد حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ ہوں کیونکہ وہ بھی ذرا سخت طبیعت کے تھے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں سے محبت وپیار کرنے کو رحمت سے تعبیر کیا ہے کیونکہ آپ نے دیہاتی سے فرمایا:
اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے رحمت کھینچ لی ہے تو میں تیرے دل میں جذبۂ رحمت پیدا کرنے پر قادر نہیں ہوں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس قسم کا واقعہ حضرت قیس بن عاصم تمیمی رضی اللہ عنہ اور حضرت حصن بن حذیفہ فزاری رضی اللہ عنہ سے بھی پیش آیا۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی محرم یا اجنبی بچے کا بوسہ لینا یہ شفقت اور پیار کی وجہ سے ہوتا ہے، اس میں لذت یا شہوت کا شائبہ نہیں ہوتا لہٰذا اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں، اسی طرح بچوں کو گلے لگانا، انھیں سونگھنا بھی جائز ہے۔
(فتح الباري: 528/10)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5998